بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیم کا آن لائن کاروبار کرنے کا حکم/ تاش کھیلنے کا حکم


سوال

 میں آن لائن سیل فون گیمز کےکاروبار کے آغاز کے مواقع تلاش کر رہا ہوں، کیا موبائل فون کے ذریعے ویڈیو گیمز کا کاروبار کرنا اسلام میں جائز ہے؟دوسری بات یہ کہ کیا اسلام میں تاش کو تفریح ​​کے طور پر کھیلنا جائز ہے؟ اس گیم میں تاش کھیلنا شامل ہو سکتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ  کھیلوں کے جواز کے حوالے سے شرعی ضابطہ یہ ہے:

1-   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2- اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3- کھیل میں غیر شرعی امور (جوے یا کسی بھی ناجائز عقد) کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4- کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے ویڈیو گیمزیں مذکورہ شرائط نہیں  پائی جاتی مثلاً:اس میں  کوئی جسمانی ورزش نہیں   ،وقت کا ضیا ع ہے ، بعض اوقات غیر شرعی امور (جوا وغیرہ)کا ارتکاب بھی  پایاجاتاہے  ،تصویر یا تصویری کارٹون (خاص کر ویڈیو گیم میں ) ، فرائض سےغفلت پائی جاتی ہے،اس وجہ  سےآن لائن گیمز  کا کاروبارگناہ کے کام میں معاونت کی وجہ سے   ناجائز ہے ۔

تاش کھیلنا کا حکم یہ ہے کہ اگر تاش شرط لگاکر کھیلاجائے تو وہ  جوا ہے اور اس کا حرام ہونا واضح ہے، اور بلاشرط کھیلنے میں اگر ایسا انہماک ہوکہ فرائض میں کوتاہی وغفلت ہو تو یہ بھی ناجائز ہے، اور فرائض کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہوئے صرف وقت گزاری وتفریح کے لیے بلاشرط  کھیلنے میں بھی  کوئی غرضِ صحیح نہیں ہے، بلکہ لہو اور عبث کام ہے، اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا چاہئے، نیز اس طرح کے کھیل کی عادت پڑجائے تو رفتہ رفتہ یادِ خدا اور نمازوں سے غفلت ہی اس کا انجام ہے، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے،نیز تاش کے گیم کو آن لائن بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔

 تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه". 

(تکملہ فتح المہم، قبیل کتاب الرؤیا، ج:4،ص:435ط: دارالعلوم کراچی)

         ارشادِ باری تعالی ہے:

"{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ } ."[لقمان: 6]

       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها". 

(تفسیر آلوسیؒ ج:11،ص: 66،سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیہ)

کفایت المفتی میں ہے:

’’تاش،  چوسر، شطرنج لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے نیز ان کھیلوں میں مشغول اکثری طور پر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب  بن جاتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ  جاتی ہے‘‘.

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:9،ص:204،ط:دار الاشاعت)

فتاویٰ مفتی محمودمیں ہے:

’’تاش کھیلنایالوڈوکھیلنابہت براہے،اوراگراس پرہارجیت کی شرط ہوتوجواہے اوربالکل حرام ہے،گناہ کبیرہ سے بچناہرمسلمان پرفرض ہے،کامیاب مومن کی شان اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں یوں بیان کی ہے:’’کامیاب مومنین و ہ ہیں جولہوولعب سے اعراض کرتے ہیں‘‘۔حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:"خودتولہوولعب میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اگرکوئی اورشخص مصروف ہوتواس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔

(فتاویٰ مفتی محمود،کتاب الحظرالاباحہ،11/295،جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں