سا فٹ ویئر انجینئر آج کل زیادہ تر نوکری ایسی کمپنیوں کے لیے کرتا ہے، جہاں گیمز بنائے جاتے ہیں چوں کہ ساری دنیا آج کل گیمز میں مشغول رہتی ہے ،اس وجہ سے اس کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہوگئی ہے ، گیمز کے علاوہ سافٹ ویئر انجنئیر کی نوکری بہت مشکل سے ملتی ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی ایسی کمپنی میں نوکری کرنا جائز ہے جہاں صرف گیمز کا کام ہی ہوتا ہو ؟
واضح رہے کہ عام طور سےگیمز میوزک اور جان دار اشیاء کی تصاویر پر مشتمل ہوتے ہیں اور اگر میوزک اور جاندار کی تصاویر نہ بھی ہوں، تب بھی اس میں وقت کا ضیاع ہے،عبث اور لایعنی کام ہے مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول کاموں سے اجتناب کرتاہے ۔حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
'' انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہے "۔
اس لیےصورت ِ مسئولہ میں ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا (جس میں صرف گیمز کاکام ہوتا ہواور گیم بھی غیر شرعی امور پر مشتمل ہو ) جائز نہیں ہے۔
البحر الرائق میں ہے :
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."
(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :
"الإجارۃ علی المنافع المحرمة کالزنی والنوح والغناء والملاهی محرمة وعقدہا باطل لا یستحق به أجرۃ، ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب له غناءا ونوحًا ، لأنه انتفاع بمحرم. وقال أبو حنیفة : یجوز ، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربها ، ولا علی حمل الخنزیر."
(کتاب الاجارۃ،الاجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101641
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن