بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گیم کے سکوں میں ہار جیت سود ہے یا نہیں؟


سوال

آج کل آن لائن گیم کھیلی جاتی ہیں، ان میں کچھ فرضی سکے ہوتے ہیں، اگر وہ موجود ہوں تو دوسری گیم کھیل سکتے ہیں، ورنہ نہیں کھیل سکتے۔ جب دو لوگ آن لائن کھیل رہے ہوں، پچاس سکے ایک کے اور دوسرے کے بھی پچاس سکے لے کر ایک گیم لگادی جاتی ہے۔ پھر جو جیتتا ہے، اسے سو سکے مل جاتے ہیں، حال آں کہ اس نے پچاس سکے لگائے ہوتے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ صورت سود کے زمرے میں تو نہیں آتی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر گیم میں ایسے فرضی سکے ہوں جو حقیقت میں "مال" کے طور پر استعمال نہ ہوسکتے ہوں، یعنی ان سے کوئی خرید و فروخت نہ کی جاسکتی ہو تو صرف گیم میں ایسے سکوں سے گیم کھیلنا اور اس پر زیادہ سکے کمانا سود نہیں ہے۔  البتہ اگر گیم جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہو، یا اس میں انہماک کی وجہ سے فرائض سے بھی غفلت ہو اور اس کا کوئی دنیاوی فائدہ بھی نہ ہو تو یہ کھیل جائز نہیں ہوگا۔

علاوہ ازیں اگرچہ مذکورہ صورت سود یا جوا تو نہیں ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کی ہدایت ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آؤ جوا کھیلیں، تو اسے چاہیے کہ وہ صدقہ دے، یعنی جو گناہوں کی نقل کرے یا صرف زبانی طور پر ایسے الفاظ کہے تو بھی شرعًا یہ اتنا ناپسندیدہ ہے کہ اس پر توبہ و استغفار کے ساتھ صدقہ بھی کرنا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 249):

"و ذلك فضل خال عن العوض فيكون ربًا، و الربا لايكون في المعاوضات الغير المالية ولا في التبرعات."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں