بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گلے میں تعویذ پہننا


سوال

کیا گلے میں تعویز پہننا جائز ہے؟

جواب

جو شخص خود مسنون دعائیں پڑھ سکتاہو، اسے چاہیے کہ وہ حفاظت وغیرہ کی مسنون دعائیں، قرآنی آیات پر مشتمل دعائیں وغیرہ خود پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے، ایسے شخص کے لیے شدید ضرورت کے بغیر تعویذ کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر گلے میں تعویذ ڈالنا چاہے تو اس   کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا  جانا ضروری ہے:

(۱)  جو کچھ لکھا ہو اس  کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) اس میں کوئی  شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  اس کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ۔

لہذا  ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ  قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان کو پہننا شرعاً درست ہے ۔ اور جن تعویذوں میں کلمات  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال   کرنا   شرعاً جائز نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ  بن عمرو رضی اﷲ عنہما، اللہ کی قدرت وکبریائی پر مشتمل کلماتِ تعوذ اپنے سمجھ دار بچوں کو یاد کراتے تھے، اور جو بچہ سمجھ دار نہ ہوتا تھا اُس کے گلے میں وہ کلمات لکھ کر تعویذ کی شکل میں ڈال دیتے تھے، اُن کے اِس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی عظمت پر مشتمل پر اثر کلمات تعویذ میں استعمال کرنا جائز ہے۔

" [فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك، إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية؛ لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم، يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمةً فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم، وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى. وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار". (فتاوی شامی ۔6 / 363، کتاب الحظر والاباحة، ط: سعید)

"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم کان یعلمهم من الفزع کلمات: أعوذ باللّٰه بکلمات اللّٰه التامة من غضبه وشر عباده، ومن همزات الشیاطین وأن یحضرون، وکان عبد اللّٰه بن عمرو رضي اللّٰه عنه یعلمهن من عقل من بنیه، ومن لم یعقل کتبه فأعلقه علیه".  (سنن أبي داؤد ۲؍۵۴۳مطبع دیوبند، مشکاة المصابیح۲۱۷) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں