بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غلطی سے زنا ہو جائے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟


سوال

زنا غلطی سے ہوگیا اور کسی کو پتہ نہیں ،توبہ بھی کی، لیکن کیا 100 کوڑوں کے علاوہ کوئی کفارہ ہےتاکہ آخرت میں بخشش ہوسکے ؟یا 100 کوڑے وہ عورت کسی کو کہہ  کر خود کو لگوائے ؟

جواب

 ’’زنا‘‘ کبیرہ گناہوں میں سے سخت ترین گناہ ہے،   ’’زنا‘‘ کی شرعی سزا (حد) مقرر ہے،  اگر کوئی شخص اس فعلِ شنیع کا ارتکاب کرے اور  شرائط کے مطابق چار گواہوں کے ذریعہ، یا چار مرتبہ قاضی کی مجلس میں اقرار  کے ذریعہ  اس کاثبوت ہوجائے تو شریعتِ محمدیہ میں ایسے فرد پر ’’حدِّ زنا‘‘ کانافذکرنالازم ہے۔

زناکی شرعی سزایہ ہے کہ اگر بالغ شادی شدہ مردیا عورت زنا کرے تو  اس کو سنگ سار  کیا جائے  اوراگرغیرشادی شدہ اس حرکت کا مرتکب ہو تواس کو سوکوڑے مارے جائیں۔لیکن یہ یاد رہے کہ  سزاؤں  (اور تعزیرات )کے نفاذ کا اختیار اسلامی حکومت اور عدلیہ کوہے، ہرفرد کوسزاؤں کے نفاذ کا اختیار شریعت نے نہیں دیاہے۔

اور جس شخص سے زنا سرزد ہوجائے اس کے لیے شریعت میں حکم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور اپنے گناہ پر پکی سچی توبہ کرے،استغفار کرے  اور اپنے  اس گناہ کا کسی کو مت بتائے ،امید ہے کہ اللہ تعالی اس توبہ سے ہی اس کے گناہ کو معاف کردیں گے اور آخرت میں اس گناہ کی وجہ سے پکڑ  نہیں ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(الحد) لغة المنع. وشرعا (عقوبة مقدرة وجبت حقا لله تعالى) زجرا، فلا تجوز الشفاعة فيه بعد الوصول للحاكم، وليس مطهرا عندنا بل المطهر التوبة. وأجمعوا أنها لا تسقط الحد في الدنيا.

قوله وأجمعوا إلخ) الظاهر أن المراد أنها لا تسقط الحد الثابت عند الحاكم بعد الرفع إليه، أما قبله فيسقط الحد بالتوبة حتى في قطاع الطريق سواء كان قبل جنايتهم على نفس أو عضو أو مال أو كان بعد شيء من ذلك كما سيأتي في بابه، وبه صرح في البحر هنا خلافا لما في النهر، نعم يبقى عليهم حق العبد من القصاص إن قتلوا والضمان إن أخذوا المال، وقول البحر: والقطع إن أخذوا المال سبق قلم، وصوابه والضمان.

والحاصل أن بقاء حق العبد لا ينافي سقوط الحد، وكأنه في النهر توهم أن الباقي هو الحد وليس كذلك فافهم. وفي البحر عن الظهيرية: رجل أتى بفاحشة ثم تاب وأناب إلى الله تعالى فإنه لا يعلم القاضي بفاحشته لإقامة الحد عليه؛ لأن الستر مندوب إليه. اهـ.

وفي شرح الأشباه للبيري عن الجوهر: رجل شرب الخمر وزنى ثم تاب ولم يحد في الدنيا هل يحد له في الآخرة؟ قال: الحدود حقوق الله تعالى إلا أنه تعلق بها حق الناس وهو الانزجار، فإذا تاب توبة نصوحا أرجو أن لا يحد في الآخرة فإنه لا يكون أكثر من الكفر والردة وإنه يزول بالإسلام والتوبة."

 (كتاب الحدود،4/ 3،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وركنه: إقامة الإمام أو نائبه في الإقامة. وشرطه: كون من يقام عليه صحيح العقل سليم البدن من أهل الاعتبار والانتذار حتى لا يقام على المجنون والسكران والمريض وضعيف الخلقة إلا بعد الصحة والإفاقة. كذا في محيط السرخسي. وحكمه الأصلي: الانزجار عما يتضرر به العباد وصيانة دار الإسلام عن الفساد والطهر من الذنب ليست بحكم أصلي لإقامة الحد لأنها تحصل بالتوبة لا بإقامة الحد ولهذا يقام الحد على الكافر ولا طهرة له. كذا في التبيين."

(كتاب الحدود،الباب الأول في تفسير الحدود شرعا وركنه وشرطه وحكمه،2/ 142،ط:دار الفكر)

وفيه أيضا:

"ويثبت الزنا عند الحاكم ظاهرا بشهادة أربعة يشهدون عليه بلفظ الزنا لا بلفظ الوطء والجماع كذا في التبيين ...ويثبت الزنا بإقراره كذا في البحر الرائق. ولا يعتبر إقراره عند غير القاضي ممن لا ولاية له في إقامة الحدود ولو كان أربع مرات حتى لا تقبل الشهادة عليه بذلك كذا في التبيين."

(كتاب الحدود،الباب الثاني في الزنا،2/ 143،ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں