بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گلی میں نکلنے والی مرغی کے گوشت کھانے کا حکم


سوال

 ہمارے گھر میں مرغیاں ہیں، وہ گلی میں نکلتی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں  کہ ان کو تیں دن گھر میں باندھنے سے پہلے ان کا کھانا درست نہیں، رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ایسا  حلال جانور کہ جس کی غذا میں پاک اور ناپاک دونوں چیزوں شامل ہوں یعنی وہ پاک اور صاف ستھری چیزیں بھی کھاتا ہو اور ناپاک اور گندی چیزیں بھی کھاتا ہو ،لیکن گندگی کھانے کی وجہ سے اس کے گوشت اور جسم سے کسی قسم کی بدبو  ظاہر نہیں ہوتی ہو، تو اس جانور کا کھانا بلا کراہت درست ہے، لیکن اگر اس کی غذا کا مدار صرف ناپاک اشیاء پر ہو یا اس کی غذا میں اکثر چیزیں ناپاک ہوں جس کی وجہ سے اس کے جسم یا گوشت میں سے کسی قسم کی بدبو ظاہر ہوتی ہو تو ایسی صورت میں اس وقت تک اس جانور کا کھانا جائز نہیں ہے جب تک اس کے گوشت وغیرہ سے وہ بدبو زائل نہ ہوجاۓ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں گلی کوچوں میں   مرغی صاف اور گندی دونوں چیزیں کھاتی ہے تو اس کا گوشت کھانا بلا کراہت درست ہے ،کیونکہ اس کے جسم اور گوشت سے اکثر بدبو نہیں آتی ،البتہ اگر مرغی خالص گندگی کھالیں اور گوشت اور جسم سے بدبو آنے لگے تب اس کو تین دن پنجرہ وغیرہ میں رکھ کرپاک صاف چیزیں کھلائی جائیں ،جب جسم اور گوشت سے بدبو آنا ختم ہوجائے تو پھر اس کا کھانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يكره من الحيوانات فيكره أكل لحوم الإبل الجلالة وهي التي الأغلب من أكلها النجاسة لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل لحوم الإبل الجلالة ولأنه إذا كان الغالب من أكلها النجاسات تتغير لحمها وينتن فيكره أكله كالطعام المنتن. وروي  «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن الجلالة أن تشرب ألبانها» ؛ لأن لحمها إذا تغير يتغير لبنها، وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام - نهى عن أن يحج عليها وأن يعتمر عليها وأن يغزى وأن ينتفع بها فيما سوى ذلك» فذلك محمول على أنها أنتنت في نفسها فيمتنع من استعمالها حتى لا يتأذى الناس بنتنها كذا ذكره القدوري  رحمه الله  في شرحه مختصر الكرخي، وذكر القاضي  في شرحه مختصر الطحاوي أنه لا يحل الانتفاع بها من العمل وغيره إلا أن تحبس أياما وتعلف فحينئذ تحل وما ذكر القدوري رحمه الله أجود؛ لأن النهي ليس لمعنى يرجع إلى ذاتها بل لعارض جاورها فكان الانتفاع بها حلالا في ذاته إلا أنه يمنع عنه لغيره.

ثم ليس لحبسها تقدير في ظاهر الرواية هكذا روي عن محمد رحمه الله أنه قال: كان أبو حنيفة رضي الله عنه لا يوقت في حبسها وقال تحبس حتى تطيب وهو قولهما أيضا، وروى أبو يوسف عن أبي حنيفة عليه الرحمة أنها تحبس ثلاثة أيام، وروى ابن رستم رحمه الله عن محمد في الناقة الجلالة أو الشاة والبقر الجلال أنها إنما تكون جلالة إذا تفتتت وتغيرت ووجد منها ريح منتنة فهي الجلالة حينئذ لا يشرب لبنها ولا يؤكل لحمها، وبيعها وهبتها جائز، هذا إذا كانت لا تخلط ولا تأكل إلا العذرة غالبا فإن خلطت فليست جلالة فلا تكره؛ لأنها لا تنتن."

(كتاب الذبائح والصيود،فصل في بيان ما يكره من الحيوانات،39،40/5،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100695

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں