بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گلی کوچوں میں گھومنے والے خواجہ سراوؤں سے پردہ کا حکم


سوال

 خواجہ سرا سے پردے کا کیا حکم ہے ؟ جو چوک چوراہوں پر پھر رہے ہوتے ہیں، ان سے پردہ لازم ہے ؟کہ انسان ان کو دیکھ کر اپنی نظریں جھکالے ۔

جواب

واضح رہے کہ خنثی یعنی  خواجہ سراؤں سے متعلق  شرعی حکم یہ ہے کہ اگر ان میں مردوں والی علامات پائی جاتی ہوں ،مثلًا بالغ ہونے سے پہلے لڑکوں کی طرح پیشاب  کرے ،اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ڈاڑھی نکل آئے وغیرہ تو ایسی صورت میں وہ خنثی  مرد شمار ہوگا،اور اس سے پردہ کرنا لازم نہیں ،لیکن اگر اس میں عورتوں والی علامات پائی جائیں ،مثلًا بلوغت سے پہلے لڑکیوں کی طرح پیشاب  کرتاہو،اوربالغ ہونے کے بعد اس کا سینہ ابھر آئے وغیرہ تو ایسی صورت میں اس  خنثی کو عورت شمار کیا جائے گا،اور اس پر پردہ کرنا لازم ہوگا،لیکن اگر اس کے بارے میں کوئی علامت  ظاہر نہ ہو ،اور اس کے مرد یا عورت ہونے کا علم نہ ہو تو ایسے خواجہ سرا کو شریعت کی اصطلاح میں خنثی مشکل کہا جاتاہے ،اور اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس سے تمام معاملات میں احتیاط کرنا چاہیے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں باہر گلی کوچوں پر گھومنے والے خواجہ سراعمومًا مرد ہوتے ہیں ،مصنوعی طور پر  یہ صورت اختیار کرتے ہیں ،اس لیے ان کے بارے میں پردے  کا حکم لازمی طور پر نہیں لگایا جاسکتا  ،البتہ پھر  بھی ان سے تعلقات ،  میل جول   اور پردہ کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے،خصوصًا  اگر ان کو دیکھنے سے شہوت آتی ہو،تب تو دیکھنا جائز نہیں ۔

صحیح البخاری میں ہے:

"أن ‌أم سلمة أخبرتها: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان عندها وفي البيت مخنث، فقال لعبد الله أخي أم سلمة: يا عبد الله، إن فتح لكم غدا الطائف؛ فإني أدلك على بنت غيلان، فإنها ‌تقبل ‌بأربع وتدبر بثمان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا يدخلن هؤلاء عليكن."

(كتاب اللباس، ‌‌باب إخراج المتشبهين بالنساء من البيوت، ج:7، ص:159،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا، فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل، ولا تعتبر الكثرة)

خلافا لهما، هذا قبل البلوغ (فإن بلغ وخرجت لحيته أو وصل إلى امرأة أو احتلم) كما يحتلم الرجل (فرجل، وإن ظهر له ثدي أو لبن أو حاض أو حبل  أو أمكن وطؤه فامرأة، وإن لم تظهر له علامة أصلا أو تعارضت العلامات فمشكل) لعدم المرجح: وعن الحسن أنه تعد أضلاعه فإن ضلع الرجل يزيد على ضلع المرأة بواحد ذكره الزيلعي وحينئذ (فيؤخذ في أمره بما هو الأحوط) في كل الأحكام.

وفي الرد:(قوله فإن بال إلخ) أي إذا وقع الاشتباه فالحكم للمبال لأن منفعة الآلة عند انفصال الولد من الأم خروج البول فهو المنفعة الأصلية للآلة وما سواه من المنافع يحدث بعدها"

(كتاب الخنثي، 6، ج:727، ط:سعید)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال:حدیث میں ہجڑوں سے پردہ کا کرنے کا حکم ہے،عرض یہ ہے کہ یہ جماع کے قابل نہیں ہوتے ،تو ان سے پردہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟

جواب:پردہ کا مبنی قدرت جماع نہیں ،حدیث میں ہےکہ بغر ض استلذاذ دیکھنا یا باتیں سننایا ہاتھ سے مس کرنا آنکھ کان اور ہاتھ کا زنا ہے ،اور یہ صفت ہجڑے میں بھی موجود ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:8، ص:35، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں