بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

گلے سے مسلسل گاڑھا پانی نکلنے کی صورت میں پاکی کا حکم ؟


سوال

میرے گلے میں چھوٹی سوئی کی طرح سوراخ ہے،یہ سوراخ پیدائشی ہے(بہن، بھائی کے بھی یہ سوراخ ہے)اس سے مسلسل گلے کے باہر ہلکا گاڑھا سا پانی نکلتا ہے،کام یا نماز پڑھتے ہوئے زیادہ نکلتا ہے۔

1) کیا میں شرعی معذور ہوں یا نہیں؟

2) میں نماز کیسے پڑھوں ؟اس کا طریقہ بھی بتادیں،کیوں کہ نماز پڑھتے ہوئے یہ نکلتا ہے،ویسے گاڑھا ہونے کی وجہ سے نکلتا نہیں۔

3) اس پانی سے کپڑے ناپاک ہوتے ہیں یا نہیں؟

میڈیکل رپورٹ کے مطابق  ایک چھوٹی سےرگ نالی ہے،جس سے یہ پانی نکلتا ہے،دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ نکلتے ہوئے محسوس نہیں ہوتا بلکہ ہاتھ لگاؤ تو معلوم ہوتا ہے کہ پانی نکلا ہے۔

جواب

1،2۔صورت مسئولہ میں   میڈیکل رپورٹ کے مطابق جب ہلکا گاڑھا پانی ایک رگ سے نکلتا ہے،اگر یہ پانی محض سوراخ ہونے کی بناء پر نکلتا ہے تو یہ پاک ہے اور اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، لیکن اگر یہ کسی زخم وغیرہ کی بناء پر نکلتا ہے تو یہ  پانی نجس ہے، لہذا سائل    کے گلے کی   نالی (رگ)سے پانی (مواد)کا نکلنا اگر  اس قدر ہو کہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں پاک اور باوضو ہو کر اس وقت کی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر  نہ ملتا ہو، یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا  کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکیں  تو  سائل  شرعاً معذور  کہلائے گا۔اور  شرعی معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت  میں  ایک مرتبہ  وضو کرلے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنی چاہے فرائض اور نوافل ادا کرے اور تلاوت قرآن کریم کرلے (خواہ اس ایک وقت کے  درمیان گلے سے پانی  (مواد)جاری رہے ، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو  وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا، البتہ گر  درمیان میں وضو کے بعد  گلے سے پانی نکلنے کے علاوہ (یعنی جس بیماری کی وجہ سے سائل معذور کے حکم ہے )  کوئی اور وضو ٹوٹنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا  ،ورنہ ایک نماز کے وقت میں دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

3۔یہ گاڑھا پانی کپڑے کی جس جگہ لگ جائے،اس جگہ کو دھونا ضروری ہے،کپڑے پاک رکھنے کے لیے روئی یا کوئی کپڑا اس جگہ رکھ لیا جائے تا کہ گاڑھا پانی  کپڑے پر نہ لگ پائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) ما يخرج من غير السبيلين ويسيل إلى ما يظهر من الدم والقيح والصديد والماء لعلة وحد السيلان أن يعلو فينحدر عن رأس الجرح. كذا في محيط السرخسي وهو الأصح. كذا في النهر الفائق. الدم إذا علا على رأس الجرح لا ينقض الوضوء وإن أخذ أكثر من رأس الجرح. كذا في الظهيرية والفتوى على أنه لا ينقض وضوءه في جنس هذه المسائل. كذا في المحيط.الدم والقيح والصديد وماء الجرح والنفطة والسرة والثدي والعين والأذن لعلة سواء، على الأصح كذا في الزاهدي."

(كتاب الطهارة، الباب الأول، الفصل الخامس،  ج: 1، ص: 10، ط: دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے:

”والقيح الخارج من الأذن أو الصديد إن كان بدون الوجع لا ينقض، ومع الوجع ينقض؛ لأنه دليل الجرح روي ذلك عن الحلواني .وفيه ‌نظر ‌بل ‌الظاهر إذا كان الخارج قيحا أو صديدا ينقض سواء كان مع وجع أو بدونه؛ لأنهما لا يخرجان إلا عن علة نعم هذا التفصيل حسن فيما إذا كان الخارج ماء ليس غير وفيه أيضا، ولو كان في عينيه رمد أو عمش يسيل منهما الدموع قالوا يؤمر بالوضوء لوقت كل صلاة لاحتمال أن يكون صديدا أو قيحا.“

(كتاب الطهارة، نواقض الوضوء، 34/1، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقط اع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل.(وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل)."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الحيض، مطلب في أحكام المعذور، ج: 1، ص: 305، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں