بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گلے یا بازو میں تعویذ ڈالنا / پہننا جائز ہے


سوال

کیا تعویز اپنے گلے میں لٹکانا یا بازو میں باندھنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص خود مسنون دعائیں پڑھ سکتاہو، اسے چاہیے کہ وہ حفاظت وغیرہ کی مسنون دعائیں، قرآنی آیات و احادیث پر مشتمل دعائیں وغیرہ خود پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے، ایسے شخص کے لیے شدید ضرورت کے بغیر تعویذ کا استعمال مناسب نہیں ہے۔

البتہ اگر گلے میں تعویذ ڈالنا چاہے تو اس کے جائز ہونے  کے  لیے  مندرجہ ذیل شرائط کا پایا  جانا ضروری ہے:

(1) جو کچھ لکھا ہو اس کا معنی ومفہوم معلوم ہو۔

(2) اس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو۔

(3)  اس کے مؤثر بالذات ہونے کا اعتقاد نہ ہو ۔ لہذا ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں ان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان کو پہننا شرعاً درست ہے ۔ اور جن تعویذوں میں کلمات شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثر حقیقی سمجھا جائے تو ان کا استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما، اللہ کی قدرت وکبریائی پر مشتمل کلماتِ تعوذ اپنے سمجھ دار بچوں کو یاد کراتے تھے، اور جو بچہ سمجھ دار نہ ہوتا تھا اُس کے گلے میں وہ کلمات لکھ کر تعویذ کی شکل میں ڈال دیتے تھے، اُن کے اِس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی عظمت پر مشتمل پر اثر کلمات تعویذ میں استعمال کرنا جائز ہے۔ نیز مذکورہ شرائط کے ساتھ اگر کسی مستند روحانی معالج (عامل) کی ہدایت پر گلے یا بازو میں تعویذ باندھنے کی ضرورت ہو تو یہ بھی درست ہے۔

سنن ابو داود شریف میں ہے:

"عن عمرو بن مرة، عن يحيى بن الجزار، عن ابن أخي زينب امرأة عبد الله، عن زينب امرأة عبد الله عن عبد الله قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "إن الرقى والتمائم والتولة شرك" قالت: قلت: لم تقول هذا؟ والله لقد كانت عيني تقذف وكنت أختلف إلى فلان اليهودي يرقيني، فإذا رقاني سكنت، فقال عبد الله: إنما ذاك عمل الشيطان كان ينخسها بيده، فإذا رقاها كف عنها، إنما كان يكفيك أن تقولي كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "أذهب البأس رب الناس، اشف أنت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما".

(‌‌أول كتاب الطب، باب تعليق التمائم، ج:6، ص:31، رقم الحديث:3883، ط:دار الرسالة العالمية)

و فیه أیضًا:

"عن مالك بن مغول، عن حصين، عن الشعبي عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إلا رقية إلا من عين أو حمة".

(‌‌أول كتاب الطب، باب تعليق التمائم، ج:6، ص:32، رقم الحديث:3884، ط:دار الرسالة العالمية)

مشكاة المصابيح ميں هے:

"وعن عمران بن حصين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا رقية إلا من عين أو حمة» . رواه أحمد والترمذي وأبو داود".

(‌‌كتاب الطب والرقى، ‌‌الفصل الثاني، ج:2، ص:‌‌1285، رقم الحديث:4557، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاوی شامی میں هے:

" [فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية. (قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك، إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية؛ لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم، يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمةً فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم، وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى. وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار".

( کتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:363، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503102069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں