بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غلطی سے قرآن مجید کے بوسید نسخوں کو چھوٹے اور نجاست کے اثرات سے متاثر نالے میں بہانے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے کی قدیم  جامع مسجد میں  قرآن کریم کے مصاحف کچھ قدیم اور کچھ جدید،زمانے کے مرور اور ایک آتشزدگی کی زد میں آگیے اور پھر انتظامیہ نے انہیں تھیلوں میں ڈال دیا  اور پھر بڑے امام  صاحب نے کچھ افراد کی ذمے داری لگائی کہ ان مصاحف کو پانی میں ڈال دیا جاۓ۔ 

کچھ دن بعد   بڑے امام صاحب کی عدم موجودگی میں  انتظامیہ اور ناظمِ مدرسہ نے ان مصاحف کو کچھ متعلقہ افراد کے سپرد کردیا،جنہوں نے ایک قریبی نالے مین ان مصاحف کو ڈال دیا،اس نالے کا پانی تو جاری ہے مگر اتنا نہیں کہ مصاحف اس میں بہہ جائیں ،نیز اس نالے میں  کچھ گندگی کے اثرات بھی ہوتے ہیں ،لیکن اتنا پانی ضرور ہوتا ہے کہ جو چل رہا ہوتا ہے۔

اب اس معاملے پر اہلِ علاقہ میں شدید اشتعال پایا جارہا ہے،متعلقہ افراد کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے  پانی کو بہتا اور بڑی مقدار میں سمجھ کر  ایسا کیا ،بہر کیف اس زبردست غفلت کی وجہ سے عوام کے جذبات سخت مجروح ہوۓ ہیں ،دوسری طرف متعلقہ افراد بھی ندامت  کا اظہار کررہے ہیں۔

اب کیا  قرآن مجید کو ایسے پانی میں بہا دینے کی گنجائش ہے؟ کیا مذکورہ نالے میں قرآن مجید ڈالنے کی وجہ سے قرآن کی توہین ہوئی ہے اور اس معاملے کو قرآن کی توہین کا عنوان دیا جاسکتا ہے؟ نیز ایسی صورت میں مذکورہ افراد کی شرعی سزا کیا ہوگی؟ کیا اس معاملے کی وجہ سے بڑے امام صاحب کو امامت سے معزول کیاجاسکتا ہے؟ جب کہ وہ بھی ندامت کا اظہار کررہے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ فقہاۓ احناف کے نزدیک راجح قول کے مطابق قرآنِ مجید کےوہ  نسخے یااوراق جو  بوسیدہ ہونے کی وجہ سے تلاوت کے قابل نہ رہیں، ان کا حکم یہ ہے کہ انہیں  مکمل احترام کے ساتھ کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی پاک اور محفوظ جگہ میں جہاں لوگوں کی آمد و رفت بالکل نہ ہو یا کم ہو، دفن کردیا جائے جیسا کہ مسلمان میت کو دفن کیا جاتا ہے، اور اگر وہ اوراق دھل سکتے ہوں تو انہیں دھو کر ان کا پانی کسی کنویں ،نہر یا دریا وغیرہ میں شامل کردیا جاۓ،اور اگر یہ دونوں کام مشکل ہوں تو  ان اوراق کو کسی دریا ،سمندر وغیرہ میں  بہا دیا جاۓ۔

البتہ  موجودہ زمانے میں چوں کہ قرآنِ مجید کے اوراق پرنٹڈ ہوتے ہیں، اورپانی میں بہانے کے باوجود بھی ان کی لکھائی نہیں مٹتی،  اس لیے پانی میں بہانے  کے بجاۓ ان اوراق کو  دفن کردینا چاہیے، اگر دفنانے کی کوئی صورت نہ ہو تو قرآنی بوسیدہ اوراق کے ساتھ کوئی وزنی چیز باندھ کر انہیں بہتے ہوئے گہرے پانی میں یا کنویں کی تہہ میں احترام کے ساتھ پہنچادیا جائے،یعنی خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کےبوسیدہ اوراق کو دفن کرنا پانی میں بہانے سے بہتر ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعدصورتِ مسئولہ میں قرآن مجید کے بوسیدہ نسخوں کو  ایسے نالے میں نہیں بہانا  چاہیے تھا جس میں نجاست کے اثرات بھی موجود ہوں اور اس کا پانی بھی زیادہ جاری نہ ہو ، بلکہ اوپر ذکر کردہ احکام کے مطابق عمل کیا جانا چاہیے تھا۔اگر  مذکورہ افراد سے واقعۃً یہ  عمل  غیر ارادی طور پرسرزد ہوا ہے تو وہ  غیر ارادی طور پرقرآن کریم کی  اس بے ادبی کے مرتکب ہوۓ ہیں ، انہیں چاہیے کہ اس عمل پر فوراً صدقِ دل سے توبہ و استغفار کریں، اور مذکورہ نسخہاۓ قرآن مجید اگر  اس جگہ موجود ہوں تو ان کو وہاں سے نکال کر مذکورہ بالا احکام کے مطابق عمل کیا جاۓ۔

سوال میں مذکور صورتِ حال کے مطابق چوں کہ مذکورہ افراد کا  یہ عمل  ارادی لغزش اور استخفاف بالقرآن کی نیت سے نہیں تھا؛اس لیے  اس عمل کو قصداً قرآن کریم کی بے حرمتی قرار دے کر ارادۃً گستاخی قرآن  کا عنوان دینا شرعاً درست نہیں ہے، نہ ہی اس عمل کی بنیاد پر شرعاً کوئی سزا ضروری قراردی جاسکتی ہے،نیز   اس عمل کے باوجود مسجد کے پیش  بڑےامام صاحب کو بلاوجہ و بلا قصور معزول کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ غلط ہے۔

البتہ  آئندہ کے لئے  سخت احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ مزید ایسی غیر ارادی لغزشیں آگے چل کر ارادی لغزشوں کا   اور عامۃ المسلمین کے جذبات منتشر کرنے کا باعث نہ بن جائیں۔ 

مجمع الانہر میں ہے:

"إذا أنكر آية من القرآن واستخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوه مما يعظم في الشرع أو عاب شيئا من القرآن أو خطئ أو سخر بآية منه كفر."

(كتاب السير،باب ا لمرتد،ألفاظ الكفر أنواع،692/1،ط:دار  إحیاء التراث العربی)

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"والصحيح أنه إن استحل ذلك عند فعل المعصية كفر، وإلا لا، وتلزمه التوبة إلا إذا كان ‌على ‌وجه ‌الاستخفاف فيكفر أيضا."

(خطبة الكتاب،ص:6،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی  میں ہے:

"‌الكتب ‌التي ‌لا ‌ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء.

وفی الرد:(قوله كما في الأنبياء) كذا في غالب النسخ وفي بعضها كما في الأشباه لكن عبارة المجتبى والدفن أحسن كما في الأنبياء والأولياء إذا ماتوا، وكذا جميع الكتب إذا بليت وخرجت عن الانتفاع بها اهـ. يعني أن الدفن ليس فيه إخلال بالتعظيم، لأن أفضل الناس يدفنون. وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ، ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة، ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل."

(كتاب الحظر والإباحة،‌‌باب الاستبراء وغيره،فصل في البيع،422/6،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں