بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلط راستہ بتانے کا حکم


سوال

ایک آدمی کو راستہ معلوم نہ ہو اور وہ دوسرے سے معلوم کرے، دوسرا آدمی جان کر غلط راستہ بتلائے اور جھوٹ بولے ۔ اس دوسرے آدمی کے بارے میں شرعًا کیا حکم ہے؟ اور  کیا یہ دوسرے آدمی کا یہ فعل شہادت ِ زور میں داخل  ہوگا؟ 

جواب

اگر کوئی شخص راستہ بھول چکا ہو یا اسے راستہ معلوم ہی نہ ہو تو اسے راستے بتانا اس شخص  کا  بھی حق ہے  اور  راستے کا بھی حق ہے۔  حدیثِ پاک میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے گھروں کے سامنے مجلس لگالیا کرتے تھے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو فرمایا:

"تم لوگ راستے پر بیٹھنے سے بچو!" صحابہ کرام  نے عرض کیا: حضور! ہمارے لیے ان مجالس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، یعنی ہمارے گھروں میں مجلس کی جگہ نہیں، اور ہم یہاں بیٹھ کر ضرورت کی بات کرتے ہیں، الغرض ہمارا یہاں بیٹھنا مجبوری اور ضرورت کے تحت ہے۔   اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: " اگر کرنا ہی ہے تو  پھر راستے کا حق ادا کرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، تکلیف دہ چیز کو ہٹاؤ، سلام کا جواب دو، بھلی بات کا حکم کرو اور برائی سے روکو۔" (بخاری، مسلم)

دیگر روایات میں راستے کے حقوق میں  "إرشاد ابن السبيل"   یعنی مسافر کی رہبری کرنا اور "إرشاد الضال" اور گم کردہ راہ کی رہنمائی کرنے  کا بھی ذکر ہے۔ (فتح الباری)

لہذا کسی کو غلط راستہ بتانا اس کی حق تلفی اور گناہ ہے، ایسا شخص گناہ گار ہوگا، اور چوں کہ اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اس لیے صاحبِ حق کی معافی کے بغیر معاف بھی نہ ہوگا، نیز اگر شہادتِ زور (جھوٹی گواہی) کی ایک تفسیر کے مطابق وسیع معنوں میں مراد لیا جائے تو یہ برا عمل شہادتِ زور میں داخل ہوگا، مگر اصطلاحی شہادت میں یہ عمل داخل نہیں، لیکن "قول الزور"  کے مفہوم میں بہرحال داخل ہوگا۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144203201590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں