بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر فطری طریقے سے مباشرت کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام میرے ذاتی اس مسئلے کے بارے میں کہ:

میری شادی کو تقریبًا  32 سال ہوگئے، میرے  ماشاءاللہ سے تین بیٹے ہیں اور ان میں سے دو شادی شدہ ہیں اور ہم سب ساتھ ہی رہتے ہیں، گزشتہ 5 سے 6 سال سے میرے شوہر مجھ سے غلط حرام طرز سے مباشرت کرنے کے لیے بہت زیادہ زبردستی کرتے ہیں،  جس حرام اور غلط طریقے سے کفار اور انگریز مرد اور عورت مباشرت کرتے ہیں،  میرے شوہر اس طرح کی وڈیوز موبائل پر دیکھتے ہیں اور مجھ سے بھی اسی طریقے سے ہم بستری و مباشرت کرنے کا کہتے ہیں جس طریقہ سے اسلام میں کرنا سخت منع اور حرام ہے، میرے منع کرنے پر مجھ پر شدید تشدد کرتے ہیں ، گالم گلوچ کرتے ہیں کفریہ کلمات بولتے رہتے ہیں، شور مچاتے ہیں، بات چیت بند کردیتے ہیں اور ناراض رہتے ہیں، دن بھر بیٹوں اور بہوں کے سامنے بھی اکثر گھر میں غلط حرکات کرتے ہیں اور اگر میں کچھ کہوں یا روکوں تو اولاد اور بہو کے سامنے ہی مار پیٹ کرتے ہیں،  مجھے بتایئے کہ ایسی حالت میں مجھے شریعت کے مطابق کیا کرنا چاہیے؟ کس طرح رہنا چاہیے؟ کس طرح اس گناہ سے حرام کام سے بچ سکتی ہوں؟ اور یہ جو شوہر ناراض رہتے ہیں اس کا گناہ مجھ پر ہوگا،  کیا اس کی سزا مجھ کو ملے گی؟

میں اپنے بچوں کی وجہ سے شوہر کو نہیں چھوڑ رہی ہوں، کیا میرا اس طرح ان حالات میں شوہر کے ساتھ رہنا دینِ اسلام کے مطابق درست ہے ؟ ہمارا مذہب اسلام اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے؟ کیا مجھ پر گناہ ہورہا ہے کہ جس کا سخت عذاب مجھ پر ہوگا ؟ میری راہ نمائی شریعت کے مطابق کیجیے، مجھے کیا کرنا چاہیے؟  بروزِ محشر اللہ کی بارگاہ میں مجھے پیش ہونا ہے، حساب ہوگا ،مجھے اس کی فکر ہے،  اسی کا ڈر ہے ۔

کیا اسلام حکم دیتا ہے کہ ایسی صورت میں شوہر کو چھوڑ دوں اس سے علیحدگی اختیار کرلوں ،شرعی فتوی دیجیے؛ تاکہ میں اپنے بڑوں کے سامنے پیش کرسکوں،شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کا ایسا کون سا طریقہ ہے جس سے بچوں کی عام زندگی اور مجھ پر اور میرے والدین پر بھی کوئی اثر نہ پڑے، اس سلسلے میں دین اسلام کے مطابق راہ نمائی فرمایئے گا۔ میرا ان حالات میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجھ پر شدید گناہ ہورہا ہے یا علیحدگی اختیار کرنے پر مجھ پر شدید گناہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری طریقے سے یعنی پیچھے کے راستے سےہم بستری کرنا حرام ہے،حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہےاور ایسا فعل کرنے والے پر حدیثِ مبارکہ میں لعنت وارد ہوئی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کابیان حقیقت پر مبنی ہے کہ اس کا شوہر پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرنا چاہتا ہے، اور اس کام کے لئے وہ زبردستی بھی کرتا ہے، تو اپنے اس حرام فعل کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوگا،شوہر پر لازم ہے کہ اپنے اس غیر شرعی عمل کے ارادے سے توبہ واستغفار کرے اور اپنی بیوی کے ساتھ فطری طریقے سے حقِ زوجیت ادا کرے،  اور اس کے تمام حقوق ادا کرتے ہوئے اچھے طریقے سے زندگی گزارے۔

اگر سائلہ کا شوہر اپنی اس غیر فطری فعل کے ارادے سے باز نہیں آتا تو خاندان کے بڑے اور معزز افراد کو چاہیے کہ وہ سائلہ کے شوہر کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ اپنی اس غیر فطری فعل کے ارادے سے باز آجائے اور اپنی بیوی کے ساتھ فطری طریقہ سے ہم بستری کرکے اپنا گھر آباد کرے،اس کے باوجود بھی اگر شوہر اپنی اس غیر فطری فعل کے ارادے سے باز نہ آئےتو سائلہ کو چاہیے کہ اپنے شوہر سےطلاق یا خلع لے کر اس سے علیحدہ ہوجائے،اگر وہ طلاق یا خلع دینےپر بھی آمادہ نہ ہو تو سائلہ کو چاہیے کہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں اپنا دعوی دائر کرے اورعدالت میں اپنےشوہر کے اس ناجائز حرکت کرنے سے باز آنے اور جائز طریقے سے ہم بستری کرنے کی درخواست کرے،حاکم شوہر کو بلائے اور اس سے اپنی بیوی یعنی سائلہ کے ساتھ جائز اور فطری طریقے سےہم بستری کرنے کی ضمانت لے،اگروہ اس بات کو مان لے اور اپنی اس ناجائز  اور غیر فطری حرکت سے باز آجائے تو حاکم بیوی کو اس کے حوالے کردے،ورنہ اس کو طلاق دینے پر مجبور کرے،اگر سائلہ کا شوہردونوں باتوں( یعنی جائز طریقہ اختیار کرنے یا طلاق دینے)میں سے کسی پربھی آمادہ نہ ہوتو حاکم سائلہ کے خاوند کواس جرم کی بنیاد پرتعزیراً قید و بند وغیرہ کی سزا بھی دے سکتا ہے،یہاں تک کہ وہ جائز طریقہ اختیار کرے یااپنی بیوی کو طلاق دے دے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

عن ‌أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ملعون ‌من أتى امرأة في دبرها".

(کتاب النکاح، باب في جامع النكاح: 1/ 311، ط:رحمانيه)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام".

(كتاب الكراهية، الباب التاسع: 5/ 330، ط:رشيديه)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"حل الوطء في القبل لا الدبر... لقوله تعالى: "نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم"، أي في أي وقت وكيفية شئتم في المكان المعروف وهو القبُل... وقوله صلّى الله عليه وسلم: "ملعون من أتى امرأة في دبرها"، "من أتى حائضاً أو امرأة في دبرها، أو كاهناً فصدَّقه، فقد كفر بما أنزل على محمد صلّى الله عليه وسلم".... لكن لا تطلق المرأة بالوطء في دبرها، وإنما يحق لها طلب الطلاق من القاضي بسبب الأذى والضرر."

(القسم السادس، الفصل الثاني، المبحث الرابع، احكام الزواج: 9/ 6590،ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504100798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں