بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس کمپریسر لگانے کا حکم؟


سوال

بلڈنگ کے تمام لوگوں نے گھروں میں کمپریسر لگائے ہوئے ہیں،جس کی وجہ سے بالکل بھی گیس نہیں آتی۔ ایسی صورت میں گیس کمپریسر مشین لگانا کیسا ہے؟

جواب

گیس کی قلت کی صورت میں  زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گھرمیں گیس پمپ  لگانا شرعاً جائز نہیں ہے؛  اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ جب گیس کا پریشر کم ہوگا اور گیس پمپ کے ذریعہ گیس کھینچ لی جائے تو  آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوگی اور وہ اس معمولی گیس سے بھی محروم ہوجائیں گے، اور جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہوتا ہے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ گیس پمپ کے ذریعہ گیس کا استعمال   قانوناً بھی جرم ہے؛ اس لیے  گیس کھینچنے کے لیے گیس پمپ کا استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ بلڈنگ والوں کا کمپریسر مشین لگا کر گیس کھینچنے کا عمل ناجائزہے،   اس ناجائز کام کی وجہ سے سائل کو  بھی تکلیف کا سامنا ہے، لیکن  اس کی وجہ سے سائل کے لئے گیس کھینچنے کے لیے   کمپریسر مشین لگانا جائز نہیں ہوگا۔ اس کا حل یہ ہے کہ سائل بلڈنگ کی  انتظامی کمیٹی سے بات کرے کہ وہ تمام رہائشیوں کو اس  بات کا پابند بنائے کہ وہ  گھروں میں کمپریسر  مشین استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"والمظلوم لا يظلم غيره".            (دررالحكام شرح غرر الأحكام: كتاب الوكالة، باب الوكالة بالخصومة (2/ 292)، ط. دار إحياء الكتب العربية)

فيض القدير شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"( لا ضرر ) أي: لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئا من حقه، (ولا ضرار) فعال بكسر أوله، أي: لا يجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد، والضرار فعل اثنين، أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه، والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقا، والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي: كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل.....وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل؛ لأن النكرة في سياق النفي تعم. وفيه حذف، أصله: لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا، أي: لايجوز شرعًا إلا لموجب خاص، وقيد النفي بالشرع ؛ لأنه بحكم القدر الإلهي لاينبغي، وأخذ منه الشافعية أن للجار منع جاره من وضع جذعه على جداره وإن احتاج، وخالف أحمد تمسكا بخبر لا يمنع أحد جاره أن يضع خشبته على جداره، ومنعه الشافعية بأن فيه جابر الجعفي ضعفوه، وبفرض صحته فقد قال ابن جرير: هو وإن كان ظاهره الأمر لكن معناه الإباحة والإطلاق بدليل هذا الخبر، وخبر إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام".

 (فيض القدير شرح الجامع الصغير: باب حرف " لا " (6/ 431)، تحت رقم الحديث(9899)،ط. داراحياء التراث العربى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں