بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر اللہ کی قسم کھانا اور شرکیہ گانے کا سننا


سوال

کیا اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا کُفر ہے؟ جیسے سر کی قسم یا خود کی قسم یا ماں باپ كی قسم کھانا، ایک دین میں ایک مولانا صاحب کا بیان سن رہا تھا،انہوں نے کہا کہ  اللہ کے علاوہ جو لوگ قسم کھاتے ہیں، خودکی  یا سر کی  یا ماں باپ کی یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اِنسان کافر ہو جاتا ہے،میں نے کئی بار خودکی قسم کھائی ہے،مولانا صاحب کی بات سن کر مُجھے بہت ندامت ہوئی کہ کہیں  ماضی کی زندگی میں کوئی اور کُفرِیہ یا شرکیہ الفاظ نا نکل گئے ہوں، پھر میں نے رو رو کر گڑگڑا کر توبہ کی،اور میں توبہ میں یہ لفظ استعمال کیا کہ اے اللہ، میں اپنے تمام کفرو شرک سے توبہ کرتا ہوں ،جس کا مُجھے علم ہے، جس کا مجھے علم نہیں ، اے اللہ تو جانتا ہے سب کُچھ تو معاف کر دے ،میں تُجھ سے وعدہ کرتا ہو کبھی کُفرِیہ یا شرکیہ الفاظ نہیں بولوں گا۔اب  پوچھنا یہ ہے کہ اگر میرے زندگی میں کوئی اور بھی چھُپا ہوا کُفر یا شرك رہا ہوگا تو اِس طرح سے توبہ کرنے سےمعاف ہو گیا ہوگا؟ کیوں کہ ماضی میں کون سا الفاظ نکلا ہوگا؟  مُجھے یاد نہیں ہے، لیکِن جہالت بھاری زندگی رہی ہے، کہیں کوئی لفظ غلطی سے نکل گیا ہوگا اور میں نے ماضی میں ایسا گانا بھی سناہے جو کُفرِیہ طرز پر تھے، زبان سے میں نےگایا ہے کہ نہیں ،مجھے یاد نہیں، جہاں تک یاد ہے کہ صرف سنا تھا "یارا تیری یاری کو میں نے تو خدا مانا"، یا ایسے جیسے "سجدے میں سر جھکتا ہے یارا میں کیا کروں"بس سنا تھا کبھی، تو میری یہ توبہ سے معاف ہو جائے گا؟،اور میں نے تجدیدِ ایمان بھی کیا ہے؟، پھر بھی پریشان رہتا ہوں عبادت میں دل نہیں لگ رہا ہے، آخرت کا خوف بہت زیاد ہو رہا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں غیراللہ کی قسم کھانا سخت گناہ ہے ،قسم صرف اللہ ہی کی کھانی چاہیے ،لیکن غیر اللہ کی قسم کھانے سے  کوئی شخص کافر نہیں ہوتا ،ہاں اگر کوئی شخص غیر اللہ کی قسم اس اعتقاد کے ساتھ کھاتا ہے کہ اس کو معظم سمجھتا ہے ،تو یہ شرک جلی ہے کیوں کہ اس نے  غیر اللہ کو اس عظمت میں شریک کیا جو عظمت  مختص ہے باری تعالی کے ساتھ،اور اگر ایسا کوئی اعتقاد نہیں تھا تو پھر غیر اللہ کی قسم کھانے کا گناہ ہو گا، لیکن اس سے شرک لازم نہیں آئے گا ،جہاں تک بات شرکیہ گانے سننے کی ہے  تو  اولاً  گانا گانا اور اس کو سننا ہی حرام ہے ،ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ  گانا نفاق کو اس طرح پیدا کرتا جس طرح پانی کھیتی کو ،چہ جائیکہ ایسے گانے گانا یا سننا جو شرکیہ یا موہم شرک ہوں ،

مذکورہ جملہ  "یارا تیری یاری کو میں نے تو خدا مانا"، یا " سجدے میں سر جھکتا ہے یارا میں کیا کروں "میں چوں کہ تاویل کی گنجائش ہے ،اس لیے کہ لفظ خدا فارسی  زبان کا لفظ ہے ،اس کے معنی صاحب اور مالک کے بھی آتے ہیں ، اس لیے اس کے گانے یا سننے سے کوئی کافر تو نہیں ہوگا ،ہاں  اگر کوئی اس کے مطابق اپنا عقیدہ ہی بنا لے تو یہ موجبِ کفر ہے ،البتہ یہ گانا  موہم شرک ضرور ہے کیوں کہ  خدا جب بھی مطلق بولا جاتا ہے تو اس کا اطلاق باری تعالی پر ہی ہوتا ہے،مزید یہ کہ  اس میں مذہبی اصطلاحات کو عشق بازی کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اس لیےسائل پر خوب و استغفار لازم ہے ،جب سائل اپنے اس فعل پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالی سے توبہ اور معافی مانگ چکا ہے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کیا ہے  تو ایسی توبہ کو اللہ تعالی قبول فرمالیتے ہیں ،نیز آخرت کا خوف مطلوب ہے،اس کی وجہ سے آدمی  گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن أمية، عن نافع، عن ابن عمر، أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر، وهو في بعض أسفاره وهو يقول: وأبي، وأبي فقال: " إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا، فليحلف بالله، وإلا فليصمت. "

(ج:8،ص:199،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

تنویر الابصار میں ہے:

"و فيه الكفارة فقط إن ‌حنث."

(رد المحتار ،کتاب الایمان،ج:3،ص:708،ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"«استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق ‌والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه» وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ"وفي الرد :عرف القهستاني الغناء بأنه ترديد الصوت بالألحان في الشعر مع انضمام التصفيق المناسب لها قال فإن فقد قيد من هذه الثلاثة لم يتحقق الغناء اهـ قال في الدر المنتقى: وقد تعقب بأن تعريفه هكذا لم يعرف في كتبنا فتدبر اهـ. أقول: وفي شهادات فتح القدير بعد كلام عرفنا من هذا أن التغني المحرم ما كان في اللفظ ما لا يحل كصفة الذكور والمرأة المعينة الحية ووصف الخمر المهيج إليها والحانات والهجاء لمسلم أو ذمي إذا أراد المتكلم هجاءه لا إذا أراد إنشاده للاستشهاد به أو ليعلم فصاحته وبلاغته، وكان فيه وصف امرأة ليست كذلك أو الزهريات المتضمنة وصف الرياحين والأزهار والمياه فلا وجه لمنعه على هذا، نعم إذا قيل ذلك على الملاهي امتنع وإن كان مواعظ وحكما للآلات نفسها لا لذلك التغني اهـ ملخصا وتمامه فيه فراجعه."

(کتاب الحظر و الاباحۃ ،ج:6،ص:349،ط:سعید)

المفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے:

"عن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "من حلف بغير الله فقد أشرك".

قوله: "من حلف بغير الله فقد أشرك"؛ يعني: من حلف بغير الله وصفاته معتقدا له التعظيم فقد أشرك؛ لأنه أشرك المحلوف به مع الله فى التعظيم المختص به، وإذا لم يحلف به إلا من حيث العادة كما يقول: لا، وأبي! فلا بأس، هذا هو الظاهر.قال الشيخ في "شرح السنة": وفسر هذا الحديث بعض أهل العلم على التغليظ، وهذا مثل ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: "الرياء شرك"، وقد فسر بعض أهل العلم: {ولا يشرك بعبادة ربه أحدا} [الكهف: 110] قال: لا يرائي، وهذا التفسير يدل على أن قوله - صلى الله عليه وسلم -: "فقد أشرك" شرك دون شرك، يريد به: الشرك الخفي."

(باب الایمان و النذور ،ج:4،ص:172،ط:دار النوادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں