بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر تعمیر شدہ فلیٹ فروخت کرنا


سوال

نیا ناظم آباد میں چھ ہزار پلاٹ تھے جو کہ بِک چکے ہیں ،اب وہاں پر اپارٹمنٹ بننے جارہے ہیں ،فی الحال جہاں اپارٹمنٹ بنیں گے وہ جگہ تو متعین ہے یعنی اس کی حدود اربعہ متعین کردی گئی ہیں،لیکن وہاں ابھی تک کوئی تعمیرات نہیں ہوئی ہیں ،تعمیراتی کام تقریباچار ساڑھے چار سال کے بعد شروع ہوگا۔اب اپارٹمنٹ بننے سے پہلے پراجیکٹ کے مالکان انویسٹروں اور بروکروں کے لیے پری بکنگ(Pre booking)کرتے ہیں تو کیاپراجیکٹ کے مالکان کا ایسے اپارٹمنٹ کے فلیٹوں کو انویسٹر کو فروخت کرنا اور انویسٹر کا اسے آگے فروخت کرنا شرعا جائز ہے ؟نیز  بروکر کا اپنا 5 فیصد یا 10 فیصدکمیشن رکھ کرآگےکسی تیسری پارٹی کو بیچنا صحیح ہے یا نہیں ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب مذکورہ مقام پر اب تک بلڈنگ تعمیر نہیں ہوئی تو اس کے فلیٹوں کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک معدوم چیز کی بیع ہے اور معدوم چیز کی بیع شرعا باطل ہے ،البتہ اگرابھی وعدہ بیع کے طور پر فلیٹوں کی بکنگ کر لی جائے اور بکنگ کی مد میں بطور بیعانہ رقم جمع کرائی جائےاورپھر كم از كم فليٹ كا ڈھانچا(اسٹرکچر)بننے کے بعد ان کی خرید و فروخت کی جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔

چوں کہ وعدہ بیع پرحقیقی بیع کے احکامات لاگو نہیں ہوتے،یعنی کسی چیز کی خریداری کا وعدہ کرنے سے وہ چیز کسی کی ملکیت میں نہیں آتی  خصوصا جبکہ صورتِ مسئولہ میں اپارٹمنٹ اب تک موجود بھی نہیں ہیں، اس لئے بطور وعدہ بیع فلیٹ بک کروانے کے بعد اسٹرکچر کی تعمیر سے پہلے ان کو خریدے بغیرآگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے،البتہ اگر کوئی انویسٹر یا بروکر پراجیکٹ کے اصل مالکان سے خود وعدہ بیع کرنے کے بجائے خریداروں اور اصل مالکان کے درمیان معاہدہ کرادے اور اپنے اس کام اور محنت پر مالکان کی جانب سے یا خریداروں کی جانب سے یا دونوں جانب سےکمیشن لے تو اس کی اجازت ہوگی۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ."

(کتاب البیوع،فصل فی الشرائط اللذی یرجع الی المعقود علیہ،ج:5ص:138،ط:سعید)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه الخ."

(کتاب البیع،باب الاجارۃ الفاسدہ،مطلب فی اجرۃ الدلال،ج:6،ص:63،ط:سعید)

تکملۃ رد المحتار میں ہے:

"(والسمسار) بكسر السين الاولى المهملة وهو المتوسط بين البائع والمشتري ليبيع بأجر من غير أن يستأجر الخ."

(باب المضارب یضارب،ج:8،ص:445،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"بيع السمسرة: السمسرة: هي الوساطة بين البائع والمشتري لإجراء البيع. والسمسرة جائزة، والأجر الذي يأخذه السمسار حلال؛ لأنه أجر على عمل وجهد معقول الخ."

(القسم الثالث :العقود او التصرفات المدنیۃ المالیۃ ،الفصل الاول:عقد البیع،المبحث الثانی:شروط المبیع،ج:5،ص:3326،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں