بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر سید جو خود کو سید کہے اس سے نسب کا ثبوت مانگنے کا حکم


سوال

ہمارے ہاں اکثر قوموں نے خود کو سید ظاہر کیا ہوا ہے ،حالاں کہ تمام علاقہ بھر کے لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ وہ سادات میں سے نہیں  ہیں،لیکن اس کے باوجود وہ اسی ضد پہ اڑے ہیں اور اپنے ناموں کے ساتھ ’’سید‘‘ اور  ’’شاہ‘‘ لگاتے ہیں تو کیا ان سے سید ہونے کا ثبوت مانگا جا سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ابتدائی عہد میں ان سب کو  سید کہا جاتا تھا  جو  حضرت علی حضرت جعفر حضرت عباس حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہم اجمعین  کی اولاد میں سے تھے، لیکن بعد  میں سید   کا لقب خاص  ہوگیا حضرات حسنین کی اولاد کے ساتھ اور یہ ان  کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سےنسبی  نسبت کی علامت ہے،لہذا حضرات حسنین کی اولاد کے علاوہ  (مذکورہ دیگر حضرات کی اولاد) کے لیے اپنے نام کے  ساتھ سید یا شاہ کا لقب لگانا  جائز تو ہے لیکن مناسب نہیں  اور  اگر کوئی شخص مذکورہ پانچ خاندانوں میں سے ہی  نہ ہو تو اس کے  لیے اپنے نام کے ساتھ  سید یا شاہ کا لقب لگانا سرے سے جائز ہی نہیں۔

لہذا  صورت مسئولہ میں   اگر مذکورہ شخص کے غیر سید ہونے کا یقین   ہو تو اس سے سید ہونے کا ثبوت مانگنے کی ضرورت ہی نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية"

(الباب السابع في المصارف، ج:1،ص:189،ط:دارالفکر)

الحاوی للفتاوی میں ہے:

"إن اسم الشریف کان یطلق في الصدر الأول علی کل من کان من أهل البیت، سواء کان حسنیاً أم حسینیاً أم علویاً من ذریة محمد بن الحنفیة وغیره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفریاً أم عقیلیاً أم عباسیاً ... فلما ولی الخلفاء الفاطمیون بمصر، قصروا اسم الشریف علی ذریة الحسن والحسین فقط، فاستمر ذلك بمصر إلی الآن".

(ج:2، ص:39، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں