ہماری برادری کی ایک لڑکی دوسری برادری کے لوگوں نے مشورہ سے اغوا کیا ہے،اب ہماری برادری والوں نے یہ طے کیا ہے کہ ہم ان سے بدلہ لیں گے،یعنی ان کو جانی ومالی نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں،آیا ایسی حالت میں ہم اپنی برادری کے ساتھ جانی ومالی تعاون کرسکتے ہیں یا نہیں؟اگر ہم اپنی برادری کا ساتھ نہیں دیں گےتو پوری برادری کا ہم سے قطع تعلقی کا اندیشہ ہےاور ان کی طرف سے مختلف اور طرح طرح کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑے گا،اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں کہ ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں کسی کو اغوا کرنا ایک سنگین جرم ہے، کسی کی جان، مال ، عزت و آبرو شرعاًکسی کے لیے بھی حلال نہیں ہے،اس سے بچنالازم ہے، اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں کامل مسلمان کی صفات میں ایک صفت یہ ذکر کی گئی ہے کہ کامل مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاؤں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اورکسی مسلمان بھائی کو زبان، ہاتھ یا کسی اور ذریعے سے کسی قسم کی تکلیف دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً دوسری برادری کے لوگوں نے آپ کی برادری کی لڑکی کو اغوا کیا ہے تو یہ قانوناً سنگین جرم ہونے کے ساتھ ساتھ شرعا ناجائز بھی ہے،اس پر آپ کی برادری کو ازخود ان سے نمٹنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔اوراگر برادری کے بڑےآئندہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے اور اپنی برادری کی حفاظت کے لیے کوئی انتظامات وغیرہ کرتی ہے تو اس میں آپ شریک ہوسکتے ہیں،البتہ اگر مخالف برادری کے خلاف آپ کی برادری خلافِ شرع وقانون کوئی کام کرتی ہے مثلاً از خود ان کے خلاف کاروائی کرکے ان کےکسی فرد کو اغواء کرتی ہے یا جانی ومالی نقصان پہنچاتی ہےتو آپ ان کے ساتھ تعاون نہ کریں لیکن برادری سد باب کے طور ان کا بائیکاٹ کرتی ہے تو اس میں آپ شریک ہوسکتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے :
﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ [المائدة: 2]
ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ (از بیان القرآن)
مشكاة المصابيح ميں ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره التقوى ههنا» . ويشير إلى صدره ثلاث مرار " بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم كل المسلم على المسلم حرام: دمه وماله وعرضه ". رواه مسلم."
(كتاب الآداب،باب الشفقة والرحمة،ج:3،ص:1385،رقم:4959،ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
ترجمه:"اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے (لہذا) مسلمان، مسلمان پر ظلم نہ کرے اس کی مدد و اعانت کو ترک نہ کرے اور اس کو ذلیل و حقیر نہ سمجھے، پھر آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ کر کے فرمایا کہ پر ہیز گاری اس جگہ ہے نیز فرمایا کہ مسلمان کے لئے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرے یعنی کسی مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرنا بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ کوئی اور گناہ نہ بھی کرے تو اسی ایک برائی کی وجہ سے مستوجب مواخذہ ہو گا۔ (اور یاد رکھو) مسلمان پر مسلمان کی ساری چیزیں حرام ہیں جیسے اس کا خون، اس کا مال، اور اس کی عزت و آبرو۔"مسلم (از مظاهر حق)
وفیھا ایضا:
"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه» هذا لفظ البخاري ولمسلم قال:"إن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم: أي المسلمين خير؟ قال: من سلم المسلمون من لسانه ويده."
(کتاب الایمان، ج:1، ص:10،رقم:10،ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
ترجمه:" حضرت عبد اللہ بن عمرو راوی ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا ” کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان( کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے " ۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں سب سے بہتر کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ (کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔(ازمظاهر حق)
مرقاة المفاتيح ميں ہے:
"وعن سعيد بن زيد رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( «من قتل دون دينه فهو شهيد، ومن قتل دون دمه فهو شهيد، ومن قتل دون ماله فهو شهيد، ومن قتل دون أهله فهو شهيد» ) . رواه الترمذي، وأبو داود، والنسائي.
(دون دينه) :۔۔۔ أو عند حفظ دينه. (فهو شهيد) : وهذا إنما يتصور إذا قصد المخالف من الكافر أو المبتدع خذلانه في دينه، أو توهينه وهو يذب عنه، ويحجز بينه وبين ما أراد كالحامي يذب عن حقيقته. (ومن قتل دون دمه فهو شهيد، ومن قتل دون ماله فهو شهيد، ومن قتل دون أهله) : أي: عند محافظة محارمه (فهو شهيد) : قال ابن الملك: وعامة العلماء على أن الرجل إذا قصد ماله أو دمه أو أهله فله دفع القاصد بالأحسن، فإن لم يمتنع إلا بالمقاتلة فقتله فلا شيء عليه۔۔"
(کتاب الدیات،باب مالا یضمن من الجنایات،ج:6،ص:2305،رقم:3529،ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102083
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن