بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر شادی شدہ لڑکی کا میک اپ کرنا


سوال

 غیر شادی شدہ لڑکی کا میک اپ (زیب وزینت) کرنا کیسا ہے...؟؟؟ اگر جائز ہے تو قرآن کریم کی اس آیت (ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن) کا کیا مطلب ہے...؟

جواب

میک اپ تو زیب وزینت کے لیے ہوتا ہے اور وہ عورت اپنے لیے بھی کرسکتی،اس کا تعلق شادی یا غیر شادی شدہ ہونے سے نہیں ہے،سورۃ النور کی مذکورہ آیت میں عورتوں  کو زیب وزینت اختیار کرنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ یہ تو اس کی فطرت ہے،بلکہ زیب وزینت کواختیار کر کسی کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا ہے،اسی بنیاد پر آیت کے الفاظ ہیں"ولايبدين"کہ وہ ظاہر نہ کریں (اپنی زینت کو مگر ۔۔۔۔۔۔ )،باقی شادی شدہ لڑکی اپنی زیب وزینت اپنے شوہر اور دیگر محرموں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے،یعنی اپنے محرموں کے سامنے پردہ کا حکم نہیں ہے،اسی طرح غیر شادی شدہ لڑکی کا شوہر تو نہیں ،لیکن وہ اپنے لیے زیب وزینت اختیار کرسکتی ہے،غیر محرموں کے سامنے پردہ کرے  جبکہ محارم سے پردہ کی ضرورت نہیں ہے۔

باقی اگر میک اپ میں حرام اجزاء شامل نہیں تو میک اپ کرنا جائز ہے،خواہ میک اپ کرنے والی لڑکی شادی شدہ  ہو یا غیر شادی شدہ ،دونوں کے لیے جائز ہے۔

روح المعانی میں ہے:

"وقال ابن بحر: الزينة تقع على محاسن الخلق التي فعلها الله تعالى وعلى ما يتزين به من فضل لباس، والمراد في الآية النهي عن إبداء ذلك لمن ليس بمحرم...."

(سورۃ النور،ج9،ص336،دار الکتب العلمیۃ)

التفسیر المظہری میں ہے:

"ولا يبدين زينتهن كالحلى والثياب والاصباغ فضلا عن مواضعها إلا ما ظهر منها عند مزاولة الأشياء كالثياب والخاتم فان في سترها حرجا وقيل المراد بالزينة مواضع الزينة على حذف المضاف او ما يعم المحاسن الخلقية والتزينية-............ولا يبدين زينتهن الاضافة للعهد يعنى زينتهن المستثناة منها ما ظهر منها كرره لبيان من يحل له الإبداء ومن لا يحل له إلا لبعولتهن فلهم هم المقصودون بالزينة ولهم ان ينظروا الى جميع أبدانهن حتى فروجهن لكنه يكره النظر الى الفرج لقوله صلى الله عليه وسلم إذا اتى أحدكم اهله فليستتر ولا يتجردان تجرد العيرين- رواه الشافعي والطبراني والبيهقي عن ابن مسعود عن عتبة بن عنبر والنسائي عن عبد الله بن سرجس والطبراني ايضا عن ابى امامة وروى ابن ماجة عن عائشة قالت ما نظرت او ما رايت فرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قط أو آبائهن وكذا اباء الآباء واباء الأمهات وان علوا بدلالة النص والإجماع أو آباء بعولتهن كذلك أو أبنائهن وأبناء الأبناء وأبناء البنات وان سفلوا بدلالة النص والإجماع أو أبناء بعولتهن كذلك أو إخوانهن سواء كانوا من اب او من أم أو بني إخوانهن وبنى أبنائهم وأبناء بناتهم وان سفلوا أو بني أخواتهن او أبناء أبنائهن او أبناء بناتهن وان سفلوا أباح الله تعالى للنساء إبداء محاسنهن لهؤلاء لكثرة مداخلتهم عليهن واحتياجهن الى مداخلتهم وعدم توقع الفتنة من قبلهم الا نادرا لما في الطباع من النفرة عن مماسة القرابة والغيرة في انتسابهن الى الفاحشة وأباح لهم ان ينظروا منهن ما يبدو عند المحنة والخدمة وهو الوجه والرأس والصدر والساقان والعضدان ولا يجوز لهم النظر الى ظهورهن ولا الى بطونهن ولا الى ما بين السرة الى الركبة لانها لا تنكشف عادة فلا ضرورة في النظر إليها- وهذا حكم جميع من لا يجوز المناكحة بينه وبينها على التأييد بنسب كان او برضاع او مصاهرة."

(سورۃ النور،ج6،ص497،ط؛مکتبۃ الرشدیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں