بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر قوم میں شادی کرنے کی وجہ سے ماں کے حقِ حضانت کا حکم


سوال

ميرے بيٹے كي  اہلیہ نے 2020ء ميں عدالت كے ذريعه خلع ليا، اور اب وه دوسری جگہ شادی کر رہی ہے اور  جس جگہ وہ شادی کر رہی ہے وہ میرے پوتے  کے رشتے میں کچھ نہیں لگتے،  بلکہ وہ لوگ دوسری قوم کے ہیں، میرے پوتے کی عمر اس وقت ساڑھے  چار سال ہے، اور وہ میرے پوتے کو بھی اپنے ساتھ لے جا رہی ہے۔

کیا شرعی لحاظ سے اس کو اس کی اجازت ہےکہ وہ اسے لے جائے، جب کہ وہ میرے پوتے کے غیر قوم میں شادی کر رہی ہے، اور وہ رشتے میں میرے پوتے کے کچھ نہیں لگتے۔

جواب

واضح رہے کہ  میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی صورت میں بیٹے کی پرورش کا حق سات سال  كي عمر ہونے تک اس کی والدہ کو ہوتا ہے، لیکن کچھ صورتیں ایسی ہیں جس میں ماں کا حقِ پرورش ساقط ہوجاتا ہے، اُن صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ   بچے كي ماں بچے کے کسی غیرذی رحم محرم سے نکاح کر لے،  ایسی صورت میں  اُس عورت  کا حقِ پرورش ساقط ہو جائے گا،  اور يه حق ناني كي طرف منتقل هو جائے گا، اگر ناني بھی نہ ہو یا پرورش کی اہلیت نہ رکھتی ہو  تو بچے کی پرورش کا حق بچے کی دادی کو حاصل ہو گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بہو اس کے پوتے کے محرم رشتے دار کے علاوہ سے  شادی کرے گی تو اِس کی وجہ سے اُس کا حقِ پرورش ساقط ہو جائے گاا ور درج بالا ترتیب کے مطابق نانی کو اور ان کے بعد دادی کو بچے کی پرورش کا حق حاصل ہو گا۔

یاد رہے کہ خلع  دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس میں جانبین کی رضامندی ضروری  ہوتی ہے، اگر میاں بیوی کی رضامندی  سے خلع واقع ہوا ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر ہوتا ہے ، اس کے بعد عورت کو عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے  کی اجازت ہوتی ہے، لیکن  اگر  شوہر  خلع دینے پر راضی نہیں تھا اور نہ ہی خلع واقع ہونے کے بعد اس پر رضامندی کا اظہار کیا تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں اور  اس خلع  سے میاں بیوی کا رشتہ ختم نہیں ہوتا اور نہ  ہی بیوی دوسرا نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے، لہذا سائل کی بہو کے لیے دوسری شادی کرنے کی شرعًااجازت تب ہے جب سائل کا بیٹا اس خلع دینے سے پہلے یا خلع ہوجانے کے بعد اس خلع پر راضی  ہو اور اس خلع کو قبول کرے، اگر وہ خلع دینے پر راضی نہ ہو اور عدالتی یک طرفہ خلع کو قبول نہ کرےتو  اس کے لیے دوسرا نکاح کرنے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، فصل في ركن الطلاق، ج:3، ص:145، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت، كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:541، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں