بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرقانونی اشیاء کی درآمدگی کے لیے کسٹم والوں کو رشوت دینے کا حکم/ کسٹم والے جو چیزیں آدھی قیمت میں فروخت کرتے ہیں ان کو خریدنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ اس مسئلہ کی بابت کہ وہ چیزیں جن پر قانونی پابندی ہے، جیسے مختلف ممالک کی مختلف حلال آئٹم آتے ہیں، وہ کسٹم والے پکڑ لیتے ہیں، اب ہم ان سے مال کلیئر کرانے کے  لیے ان کو کچھ مال (اسی مال میں سے کچھ مال یا نقدی بطور رشوت) دے دیتے ہیں، آیا یہ مال ان کو مفت دینا کیسا ہے، اگر گناہ ہے تو یہ کس کے ذمہ ہوگی؟

یہی کسٹم والوں کو جو چیزیں مختلف لوگوں نے دی، اس کو بعد میں کسٹم والے آدھی قیمت میں فروخت کرتے ہیں، تو ان سے یہ چیزیں لینا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ملکی قانون کے مطابق جن اشیاء کی درآمدکرنے پر قانونی طور پابندی ہے ان اشیاء کے حصول کے  لیے کسٹم والوں کو اسی مال میں سے کچھ مال یا نقدی بطور رشوت کے دینا ناجائز اور حرام ہے، اس  لیے کہ درآمد کنندہ کو معلوم ہے  کہ ان  اشیاء پر پابندی کی وجہ سے رشوت دینا لازم ہے، اگر رشوت نہیں دے گا تو ان اشیاء کا حصول ممکن نہیں، اگر اس مال کے حصول کے  لیے رشوت دی گئی تو دینے والا اور لینے والا دونوں ناجائز اور حرام کام کے مرتکب ہوں  گے، اور دونوں گناہ گار  ہوں گے، لہذا ایسے کام سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ حلال اشیاء ہونے کی صورت میں ان سے حاصل ہونے  والا نفع  جائز  ہوگا۔

نیز کسٹم والوں کو جو چیزیں مختلف لوگوں نے دی، اور کسٹم والے ان اشیاء کو آدھی قیمت میں فروخت کرتے ہیں، تو اگر یہ چیزیں ان کو بطور رشوت کے دی گئیں تو ان کا ان اشیاء کو کسی بھی  قیمت پر  ان کے  لیے فروخت کرنا جائز نہیں؛ اس لیے  کہ وہ ان اشیاء کے مالک نہیں ہیں، لہذا ان اشیاء کو نہ خریدا جائے۔

مسند البزار میں ہے:

"عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الراشي و المرتشي في النار."

(‌‌مسند عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه: 3/ 247، ط: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم ‌الراشي والمرتشي. رواه أبو داود و ابن ماجه."

(‌‌كتاب الإمارة والقضاء‌‌، الفصل الثاني: 2/ 108، ط: مكتب الإسلامي، بيروت)

وفيه ایضا:

"و عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا ‌لاتظلموا ألا لايحلّ مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان و الدارقطني في المجتبى."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثانی: 2/ 889، ط: المکتب الاسلامی، بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الذي يرجع إلى العاقد فرضا المتعاقدين لقوله عز وجل: "يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم" (النساء: 29) والإجارة تجارة؛ لأن التجارة تبادل المال بالمال والإجارة كذلك، ولهذا يملكها المأذون، وإنه لا يملك ما ليس بتجارة، فثبت أن الإجارة تجارة فدخلت تحت النص، وقال النبي صلى الله عليه وسلم : "لا ‌يحل ‌مال امرئ مسلم إلا بطيبة من نفسه"  فلا يصح مع الكراهة والهزل والخطأ؛ لأن هذه العوارض تنافي الرضا فتمنع صحة الإجارة۔"

(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة: 4/ 179، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں