بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلموں سے دنیوی فنون حاصل کرنا


سوال

1: کیا کسی غیر مذہب والوں سے پڑھنا جائز ہ ے ( یعنی یو ٹیوب کے ذریعے سے) ؟

2:آج کل بہت سی تعلیمی کتابیں غیر مسلموں کی لکھی ہوئی ہیں، جو کہ یونیورسٹی لیول پر پڑھائی جاتی ہیں، کیا اس سے پڑھنا یا سبق حاصل کرنا جائز ہے؟ اور  جن طلباء کرام کا باہر ممالک میں سکالر شپ پر داخلہ ہوتا ہے، کیا وہاں پڑھنا جائز ہے؟

3: یو ٹیوب سے پیسے کمانا جائز ہے؟ نیز بہت سے علماء بھی یو ٹیوب سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔

4: فری لانسنگ کے ذریعے سے پیسے کمانا جائز ہے؟

جواب

1 : دنیوی  فنون کے متعلق اس فن  کے ماہر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؛  لہذا دنیوی فنون غیر مسلموں سے پڑھے  جاسکتے ہیں، البتہ جو باتیں اصولی طور پر ناجائز ہیں (مثلًا: دھوکا وغیرہ)  وہ سیکھنا اور سکھانا جائز نہیں ہوگا۔  جہاں تک یوٹیوب پر تعلیم کی بات ہے تو یوٹیوب پر  چوں کہ  عمومًا ویڈیو میں جان دار  کی تصاویر ہوتی ہیں جو کہ ناجائز ہے؛  لہذا یوٹیوب پر پڑھنے سے احتراز کیا جائے۔ نیز  دینی علم غیر مسلموں سے  سیکھنا  عام آدمی کے لیے ناجائز ہے؛ کیوں کہ اس میں دینی نقصان کا قوی اندیشہ ہے، اسلامی تعلیمات باعمل و باکردار مسلمان اساتذہ سے حاصل کرنی چاہییں۔

2 :  شق نمبر 1 میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق دنیوی فنون میں،  کسی دینی یا دنیاوی فائدے کے پیشِ نظر غیر مسلموں کی کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

اسکالر شپ میں تعلیمی ادارہ اپنی رضامندی سے اپنی اجرت کم لیتا ہے اور شرعی طور پر یہ معاملہ جائز ہے۔

3 : یوٹیوب پر پیسے کمانا ناجائز ہے۔ تفصیل یہاں ملاحظہ کریں :

یوٹیوب کے ذریعہ کمانا

4 : جائز کام کرکے فری لانسنگ سے  پیسے کمانا جائز ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1 / 336):

"(وعن ابن سيرين) : وهو محمد بن سيرين، مولى أنس بن مالك، وهو من مشاهير التابعين، وهو غير منصرف للعلمية، والمزيدتين على مذهب أبي علي في اعتبار مجرد الزائدتين (قال: إن هذا العلم دين) : اللام للعهد، وهو ما جاء به النبي صلى الله عليه وسلم لتعليم الخلق من الكتاب والسنة وهما أصول الدين (فانظروا عمن تأخذون دينكم): المراد الأخذ من العدول والثقات، " وعن " متعلق بتأخذون على تضمين معنى تروون، ودخول الجار على الاستفهام هنا كدخوله في قوله تعالى: {على من تنزل الشياطين} [الشعراء: 221] وتقديره أعمن تأخذون، وضمن انظر معنى العلم، والجملة الاستفهامية سدت مسد المفعولين تعليقا كذا حققه الطيبي. رواه مسلم."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2951):

"(قال) أي: زيد (فما مر بي) أي: مضى علي من الزمان (نصف شهر حتى تعلمت) : في معناه مقدر، أي: ما مر بي نصف من الشهر في التعلم، حتى كمل تعلمي، قيل: فيه دليل على جواز تعلم ما هو حرام في شرعنا للتوقي والحذر عن الوقوع في الشر، كذا ذكره الطيبي في ذيل كلام المظهر، وهو غير ظاهر، إذ لايعرف في الشرع تحريم تعلم لغة من اللغات سريانية، أو عبرانية، أو هندية، أو تركية، أو فارسية، وقد قال تعالى: {ومن آياته خلق السماوات والأرض واختلاف ألسنتكم} [الروم: 22] ، أي: لغاتكم، بل هو من جملة المباحات، نعم يعد من اللغو، ومما لا يعني، وهو مذموم عند أرباب الكمال، إلا إذا ترتب عليه فائدة، فحينئذ يستحب كما يستفاد من الحديث. (فكان) أي: النبي  صلى الله عليه وسلم (إذا كتب إلى يهود) أي: أراد أن يكتب إليهم أو إذا أمر بالكتابة إليهم (كتبت) ، أي بلسانهم (وإذا كتبوا إليه قرأت له) أي: لأجله، وفي نسخة عليه أي: عنده صلى الله عليه وسلم (كتابهم) . أي: مكتوبهم إليه. (رواه الترمذي)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں