بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم ممالک میں خلع، فسخ نکاح، طلاق علی المال اورشوہرکے خلاف زنا بالجبر کا کیس دائر کرانے کا حکم


سوال

1. طلاق، خلع اور فسخِ نکاح کا غیر مسلم ممالک مثلاً کینیڈا میں کیا طریقۂ کار ہوگا؟ کس ادارہ کو معاملہ میں کاروائی کرنے ، کاغذ مرتب کرنے یا طلاق نامہ جاری کرنے کی اجازت ہوگی؟

2. کیا کوئی غیر مسلم ملک مثلاً کینیڈا وغیرہ یا اس ملک کا کوئی قانونی ادارہ شرعاً کسی خاتون کو شوہر کی اجازت یا اجازت کے بغیر طلاق جاری کرنے کا مجاز ہوگا؟

3. کیا قرآن و حدیث میں میاں بیوی کے درمیان زنا بالجبر کا تصور ہے؟ یا کیا کوئی مسلمان عورت کسی 12 گریڈ کے کینیڈا کے پولیس والے کو استعمال کرکےاپنے شوہر پر کئی سال گزرنے کے بعد یہ الزام لگا سکتی ہے کہ نکاح قائم ہوتے ہوئے میرے شوہر نے مجھ سے زنا بالجبر کیا؟

4. کیا کسی غیر مسلم ملک کینیڈا کا ایسا قانون جو قرآن و حدیث، مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کے مخالف ہو، کسی مسلمان پر نافذ العمل ہو گا؟

5.مسلمان علماء کی جماعت کے خلع کے فیصلہ کی کیا حیثیت ہوگی؟ جب شوہر یہ بات ثابت کر دے کہ بیوی نے شوہر کے خلاف خلع کا مقدمہ بیرونِ ملک پاسپورٹ حاصل کرنے کی نیت سے کیا تھا اور یہ کہ بیوی نے غیر مسلم ملک کے قانون کو بددیانت پولیس والے کی مدد سے استعمال کر کے دو سال بعد اپنے شوہر پر زنا بالجبر کا الزام لگایاتھا،(مغربی ممالک کا ضابطہ فوجداری 271)۔

6.غیر مسلم ممالک جیسے کینیڈا میں مسلمانوں کے لیے کیا حل ہے، جب کہ وہاں کے مستند علماء کرام حکومتِ وقت کے تابع دار ہوں، حکومت سے منافع حاصل کرتے ہوں، غیر مسلم ملک اور اس کے قانونی ادارہ کے دباؤ میں کام کرتے ہوں، اور شرعی راہ نمائی کرنے میں مسلمانوں کی مدد سے انکار کردیں۔

7.کیا عورت طلاق کے بعد اپنے شوہر کا نام اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے؟

جواب

1. واضح رہے کہ طلاق کا اختیار شریعت نے شوہر کو دیا ہے،صرف شوہر ہی اپنا اختیار استعمال کرکے طلاق  دے سکتا ہے، خلع میاں بیوی کی باہمی رضامندی کا معاملہ ہے،جس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ بیوی شوہر سے  مہر یا کسی مال کے عوض خلع دینے کا مطالبہ کرتی ہے اور شوہر جواب میں مہر یا مال کے عوض خلع دے دیتا ہے، جس سےبیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔لہذا جب  خلع یا طلاق دینے کا اختیار شوہر کو ہے، کسی ادارے کو نہیں، تو مسلم  یا غیر مسلم ممالک میں اس کا طریقۂ کار ایک جیسا ہی ہوگا کہ شوہر جب بغیر کسی جبر و اکراہ کے اپنی مرضی سے بیوی کو طلاق یا خلع دے گا تو خلع یا طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ شوہر کے طلاق یا خلع دینے کے بعد اس ملک کی رسمی کاروائی کو پورا کرنے کے لیے  طلاق نامہ یا اس جیسی کوئی قانونی دستاویز کسی مجاز ادارے سے بنوانا جائز ہوگا، چاہے مسلمان ملک ہو یا غیر مسلم ملک ہو، چاہے طلاق نامہ یا خلع نامہ بنانے والا مسلمان ہو یا غیر مسلم کیوں کہ طلاق یا خلع شوہر کے دینے سے ہوچکی ہے، اس کے بعد  طلاق یا خلع نامہ بنوانے کی کاروائی صرف ایک رسمی کار روائی ہے۔

 فسخ نکاح قانونی معاملہ ہےاور چند مخصوص صورتوں (شوہر کا نامرد ہونا، شوہر کا مفقود(لاپتہ) ہوجانا، شوہر کا غائب ہوجانا ، شوہر کا متعنت (نان نفقہ نہ دیناوغیرہ) ہونا، شوہر کا مجنون ہونا )میں  مسلمان قاضی کو اختیار ہے کہ وہ بیوی کے مطالبے  پر مخصوص شرائط اور طریقۂ کار کے مطابق میاں بیوی کے درمیان نکاح فسخ کردے اور اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسلمان قاضی نہ ہو تو پھر مسلمانوں کی ایک جماعت (کم از کم تین افراد) شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے نکاح فسخ کرسکتی ہے، غیر مسلم قاضی یا کسی بھی غیر مسلم حکومت، عہدے دار کا فسخِ نکاح کے معاملہ میں فیصلہ شرعًا معتبر نہیں ہے۔

2. شوہر کی رضامندی کے بغیر مسلم یا غیر مسلم ملک کا کوئی  بھی نمائندہ یا قانونی ادارہ  طلاق دینےکا شرعًا مجاز نہیں ہے، ہاں اگر شوہر خود زبانی طلاق دے دے،اس کے بعد اس زبانی طلاق کو قانونی شکل دینے کے لیے طلاق نامہ بنوائےتو پھر مسلم یا غیر مسلم ملک کا کوئی نمائندہ یا قانونی ادارہ طلاق نامہ جاری کرسکتا ہے۔

3. میان بیوی کے درمیان زنا بالجبر کا شرعا کوئی تصور نہیں ہے، شریعت میں زنا  کی تعریف یہ ہے کہ غیر منکوحہ سے  جنسی تعلق قائم کیاجائے، منکوحہ (بیوی ) سے جنسی تعلق قائم کرنا اگرچہ اس کی رضامندی کے بغیر ہو زنا ہرگز نہیں ہوسکتا، لہذا عورت اپنے شوہر پر زنا بالجبر کا الزام نہیں دے سکتی، بلکہ شریعت تو عورت کو اس بات کا پابند کرتی ہے کہ شوہر جب بیوی کو اپنے پاس بلائے (جنسی خواہش پورا کرنے کے لیے)   توبیوی اس کو موقع دے اور انکار نہ کرے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’عورت اگر تندور پر روٹی بھی پکا رہی ہواور ایسے وقت میں بھی شوہر بیوی کو (جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے) بلائے  تو بیوی کے لیے شرعا حکم ہے کہ وہ شوہر کے پاس جائے‘‘۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں جس کا شوہر اس کو (جنسی خواہش پورا کرنے کے لیے )  بلائے اور وہ اس کو جواب نہ دے‘‘۔

یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شریعت نے نکاح کو  مر د اور عورت کے لیے جنسی خواہش پورا کرنے کاجائز راستہ بنایا ہے،تاکہ معاشرے سے بے حیائی ، فحاشی ختم ہوجائے اور ایک پاکیزہ ، پاک دامن معاشرہ وجود میں آئے، اس طرح کی قانون سازی جس میں بیوی کو شوہر کے خلاف زنا بالجبر کا کیس فائل کرنے کا اختیار دے دیا جائے یہ نکاح کے مقصد کو فوت کردے گا اور معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی وجود میں آئے گی اور پاک دامنی ختم ہوجائےگی۔ 

4. غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں پر غیر شرعی قوانین اور مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی اقدار کے خلاف  قوانین کا قطعاًاطلاق نہیں ہوتا، غیر مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے عدالتی معاملات کے حل کے لیے مسلمان قاضی (جج) متعین کریں اور اس قاضی (جج) کو اسلام کے موافق فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دیں۔

نیز اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں پر غیر اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا ہے اور تو پھر وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے ملک سے ہجرت کر کے مسلمانوں کے ممالک میں رہائش اختیار کریں۔

5.  شق نمبر ایک میں جیسے گزر چکا کہ خلع دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے، مسلم یا غیر مسلم ملک کے کسی قاضی یا قانونی ادارہ یا غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کی جماعت  کو اس کا اختیار نہیں ہے کہ وہ خلع کی ڈگری جاری کرے۔ ہاں مخصوص صورتوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ مسلمان قاضی یا غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی جماعت (جب مسلم قاضی میسر نہ ہو)  کو بیوی کے مطالبہ پر نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے، لیکن بیوی کی طرف سے  شوہر پر زنا بالجبر کے الزام کی وجہ سے  کسی صورت  فسخ نکاح جائز اور معتبر نہیں ہے۔

6. غیر مسلم ممالک میں موجود علماء کا فرضِ منصبی اور ان کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ بغیر کسی لالچ اور دباؤ کے وہاں کے مسلمانوں کی درست شرعی راہ نمائی کریں ، وگرنہ دنیا کی چند دن کی زندگی کے بعد آخرت میں اللہ کے حضور جواب دینا مشکل ہوگا، اور  سائل پر بھی لازم ہے کہ وہ ایسے علماء کو تلاش کرے جو ان کی درست شرعی راہ نمائی کریں، اگر بالفرض کوئی میسر نہیں تو پھر مسلم ممالک کے مستند اداروں اور علماء سے رابطہ کرے۔ 

7. جب میاں بیوی کا رشتہ نکاح نہیں رہا تو دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے اور رشتہ زوجیت کی وجہ سے اگر قانوناً کچھ سہولیات میاں بیوی میں سے کسی کو حاصل تھے تو رشتہ زوجیت کے ختم ہونے کے بعدشوہر کی ازدواجی حیثیت کی بناء پر ان کا حصول جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس لیے طلاق کے بعدمطلقہ کو اپنے مقاصد کے لیے شوہر کا نام بحیثیتِ ازدواجی تعلقات کے استعمال کرنا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج : 3، ص: 145، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ»

(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالده الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. وأفاد أنه لا يشترط كونه مسلما صحيحا طائعا عامدا فيقع طلاق العبد والسكران بسبب محظور والكافر والمريض والمكره والهازل والمخطئ كما سيأتي."

(کتاب الطلاق، ج: 3، ص: 230، ط: سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» . متفق عليه. وفي رواية لهما قال: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها."

(کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج: 5، ص: 2121، ط: دارا لفکر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور» . رواه الترمذي."

( کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج: 5، ص: 2126، ط:  دارا لفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وأهله أهل الشهادة) أي أدائها على المسلمين كذا في الحواشي السعدية»

(قوله: وأهله أهل الشهادة) أهل الأول خبر مقدم والثاني مبتدأ مؤخر؛ لأن الجملة الخبرية يحكم فيها بمجهول على معلوم فإذا علم زيد وجهل قيامه تقول زيد القائم، وإذا علم وجهل أنه زيد تقول القائم زيد؛ ولذا قالوا لما كان أوصاف الشهادة أشهر عند الناس عرف أوصافه بأوصافها ثم الضمير في أهله راجع إلى القضاء بمعنى من يصح منه أو بمعنى من يصح توليته كما في البحر. وحاصله: أن شروط الشهادة من الإسلام والعقل والبلوغ والحرية وعدم العمى والحد في قذف شروط لصحة توليته، ولصحة حكمه بعدها ومقتضاه أن تقليد الكافر لا يصح، وإن أسلم.

(قوله: ويرد عليه إلخ)....وإن كان المراد من يصح منه القضاء يكون المراد بالشهادة أداءها فقط، فيدخل فيه الكافر المولى على أهل الذمة فإنه يصح قضاؤه عليهم حالا وكونه قاضيا خاصا لا يضر كما لا يضر تخصيص قاضي المسلمين بجماعة معينين؛ لأن المراد من يصح قضاؤه في الجملة وعلى كل فالواجب إسقاط ذلك القيد إلا أن يكون مراده تعريف القاضي الكامل.(قوله: ليحكم بين أهل الذمة) أي حال كفره وإلا فقد علمت أن الكافر يصح توليته مطلقا لكن لا يحكم إلا إذا أسلم.

مطلب في حكم القاضي الدرزي والنصراني [تنبيه]

ظهر من كلامهم حكم القاضي المنصوب في بلاد الدروز في القطر الشامي، ويكون درزيا ويكون نصرانيا فكل منهما لا يصح حكمه على المسلمين، فإن الدرزي لا ملة له كالمنافق والزنديق وإن سمى نفسه مسلما وقد أفتى في الخيرية بأنه لا تقبل شهادته على المسلم. والظاهر أنه يصح حكم الدرزي على النصراني وبالعكس تأمل."

(کتاب القضاء، ج : 5، ص : 355، ط: سعید)

مسند احمد میں ہے: 

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 

(‌‌حديث أبي أمامة الباهلي الصدي بن عجلان بن عمرو ويقال: ابن وهب الباهلي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ج: 36، ص: 504، ر: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)

الحیلۃ الناجزۃ میں ہے:

’’اور جس جگہ مسلمان حاکم موجود نہ ہو یا مسلمان حاکم کی عدالت میں مقدمہ لے جانے کا قانونا اختیار نہ ہو یا مسلمان حاکم قواعد شرعیہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو تو اس صورت میں فقہ حنفی کے مطابق تو عورت کی علیحدگی کے لیے بغیر خاوند کی طلاق وغیرہ کے کوئی صورت نہیں اور حتی الوسع لازم ہے کہ خلع وغیرہ کی کوشش کرے۔ 

لیکن اگر خاوند کسی طرح نہ مانے یا بوجہ مجنون یا لاپتہ ہونے کے اس سے خلع وغیرہ ممکن نہ ہو اور عورت کو صبر کی ہمت نہ ہو تو مجبورا مذہب مالکیہ کے مطابق دین دار مسلمانوں کی پنچایت میں معاملہ پیش کرنے کی گنجائش ہے، کیونکہ مالکیہ کے مذہب میں قاضی وغیرہ ہونے کی حالت میں یہ صورت بھی جائز ہے کہ محلہ کے دین دار مسلمانوں کی ایک جماعت جس کا عدد کم از کم تین ہو پنچایت کرے اور واقعہ کی تحقیق کر کے شریعت کے موافق حکم کردے تو بھی قضائے قاضی کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔‘‘

(ص: ۵۱، ط: امارت شرعیہ ہند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں