بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم لڑکی سے نکاح کرنے والے شخص کا جنازہ پڑھنے کا حکم


سوال

ایک مسلم شخص نے ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کی،  پھر کچھ دن بعد اس شخص کا انتقال ہو گیا، کیا شخص کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے؟

جواب

واضح ہو کہ غیر مسلم لوگوں میں سے اہلِ کتاب یعنی یہود و نصاری سے شادی کرنا جائز ہے، اگرچہ بہتر نہیں ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر اہلِ کتاب کے علاوہ کسی غیر مسلم سے مذکورہ شخص نے نکاح کیا تھا تو اس نے گناہ کا ارتکاب کیا، البتہ وہ مسلمان تھا، اس کا جنازہ پڑھنا جائز ہے۔

تاہم اگر اس نے اہلِ کتاب کے علاوہ کسی غیر مسلم سے نکاح کو حلال سمجھتے ہوئے کیا ہو تو اس کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں  ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 210):

"(وهي فرض على كل مسلم مات خلا) أربعة."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 45):

"(قوله: وحرم نكاح الوثنية) نسبة إلى عبادة الوثن وهو ما له جثة أي صورة إنسان من خشب أو حجر أو فضة أو جوهر تنحت والجمع أوثان، والصنم صورة بلا جثة هكذا فرق بينهما كثير من أهل اللغة، وقيل لا فرق، وقيل يطلق الوثن على غير الصورة كذا في البناية نهر، وفي الفتح: ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية. وفي شرح الوجيز وكل مذهب يكفر به معتقده. اهـ.

قلت: وشمل ذلك الدروز والنصيرية والتيامنة، فلا تحل مناكحتهم، ولا تؤكل ذبيحتهم؛ لأنهم ليس لهم كتاب سماوي وأفاد بحرمة النكاح حرمة الوطء بملك اليمين كما يأتي، والمراد الحرمة على المسلم لما في الخانية: وتحل المجوسية والوثنية لكل كافر إلا المرتد. (قوله: كتابية) أطلقه فشمل الحربية والذمية والحرة والأمة ح عن البحر (قوله: وإن كره تنزيها) أي سواء كانت ذمية أو حربية، فإن صاحب البحر استظهر أن الكراهة في الكتابية الحربية تنزيهية فالذمية أولى."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201653

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں