آج کل دکانوں پر فقیر خیرات مانگنے آتے ہیں جن میں مُسلم بھی ہوتے ہیں، غیر مُسلم بھی، کیا غیر مُسلم کو خیرات دی جا سکتی ہے؟
1۔۔ جو رقم غرباء کو دی جاتی ہے، اُس کی تین قسمیں ہیں:
(1) فرض، جیسے زکات (2) واجب، جیسے نذر، صدقہ فطر ، کفارہ وغیرہ۔ (3) نفلی صدقات، جیسے عام خیرات۔
پہلی دو قسموں کی رقم (زکات، صدقاتِ واجبہ وغیرہ) کسی مسلمان مستحق شخص کو دینا ہی ضروری ہے، جب کہ نفلی صدقات غریب اور امیر دونوں کو دے سکتے ہیں۔
ملحوظ رہے کہ جس مسلمان کی ملکیت میں اس کی ضروریاتِ اصلیہ سے زائد اتنا مال (رقم، چاندی، مالِ تجارت، سونا) یا استعمال سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو وہ شرعاً مال دار ہے، اور مال دار کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔
2۔۔ غیر مسلم اگر ضرورت مند ہو تو اس کو زکات یا واجب صدقات دینا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ زکات کی ادائیگی کے لیے مسلمان مستحق کو مالک بنانا ضروری ہے، البتہ نفلی صدقات وغیرہ سے غیر مسلم کی مدد کی جاسکتی ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة علی غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزکاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس."
(المصنف لابن أبي شیبة / ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة۶؍۵۱۳ رقم:۱۰۴۱۰)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201329
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن