بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کو حرام اشیاء کی ڈلیوری کرنے کا حکم


سوال

ایک بندہ جوکہ پاکستانی ہے اور اٹلی میں تعلیم حاصل کررہا ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ وہاں ڈیلیوری کا کام بھی کرتا ہے اور وہاں کی زبان سے بھی ناواقف ہےتو ڈیلیوری کے اندر چکن پیزہ اور ایسی چیزیں زیادہ تر ہوتی ہے کہ جن میں گوشت ڈالا جاتا ہے اور اسی طرح خنزیر کا گوشت اور غیر مسلم کے ذبیحہ کا گوشت شامل ہوتا ہے اور وہاں ڈیلیوری کے علاوہ کوئی اور کام تعلیم کے ساتھ سرانجام نہیں دے سکتا، آیا یہ کام کرنا درست ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں مکمل تفصیل سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں شراب پینے والے کے ساتھ  پلانے والے، اسے بنانے والے، اسے بیچنے والے، اسے خریدنے والے، اسے بنانے کا آرڈ دینے والے، اسے اٹھا کر لے جانے والے اور جس کے پاس لے جائی جارہی ہو اور خود شراب  پر بھی اللہ کی لعنت کا ذکر ہے، نیز شراب کسی کے گھر تک پہنچانے میں حرام کام میں تعاون بھی پایا جاتاہے؛ لہذا يه كام كرنا جائز نہیں، نیز نص قطعی سے ثابت شدہ حرام چیز یعنی خنزیر نجس العین ہے،  ایک مسلمان شخص کا جس طرح شراب کی خرید و فروخت وغیرہ کرنا حرام ہے اسی طرح خنزیر کے گوشت کی خرید و فروخت یا اس میں کسی بھی قسم کی معاونت کرنا شرعاً ناجائز ہے اور اس قدر اجرت بھی جائز اور حلال نہیں، لہذا کوئی حلال کام تلاش کرے، دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے حرام کام کرنا جائز نہیں ہو گا۔

سنن ابي داؤد ميں هے:

"عن أبي علقمة، مولاهم وعبد الرحمن بن عبد الله الغافقي، أنهما سمعا ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعن ‌الله ‌الخمر، وشاربها، وساقيها، وبائعها، ومبتاعها، وعاصرها، ومعتصرها، وحاملها، والمحمولة إليه۔"

(كتاب الاشربة، باب العنب يعصر للخمر، جلد: 3، صفحه:326، طبع: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

’’حضرت ابوعلقمہؒ اور حضرت عبد الرحمن بن عبد اللہ الغافقی  ؒسے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اور شراب بنانے والے اور بنوانے والے پر اور جو شراب کو کسی کے پاس لے جائے اس پر اور جس کے پاس لے جائے ان سب پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘

البنایہ شرحِ ہدایہ ميں هے:

م: (وقال أبو يوسف ومحمد -رحمهما الله-: يكره له ذلك) ش: وبه قالت الثلاثة - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - لا يجوز العقد عندهم أصلا۔"

(كتاب الكراهيه، فصل في البيع، جلد:12، صفحه:222، طبع: دار الكتب العلمية - بيروت)

فتاویٰ شامی ميں ہے:

"(قوله وحمل خمر ذمي)قال الزيلعي: وهذا عنده وقالا هو مكروه " لأنه - عليه الصلاة والسلام - «لعن في الخمر عشرة وعد منها حاملها» وله أن الإجارة على الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل، لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه والحديث محمول على الحمل المقرون بقصد المعصية اهـ زاد في النهاية وهذا قياس وقولهما استحسان، ثم قال الزيلعي: وعلى هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعى له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره۔"

(كتاب الحظر والاباحة، فصل في البيع، جلد: 6، صفحه: 392، طبع: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں