بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کی گواہی مقبول ہے یا نہیں؟


سوال

مجھے غیر مسلم کی شہادت کے حوالے سے مدلل تفصیلات درکار ہیں،مطلب کن کن امور میں ان کی شہادت کے جواز کے اقوال ہیں اور کون کلی منع کرتا ہے؟مدلل چاہیے۔

جواب

سوال کے جواب سے پہلےغیر مسلموں کی اقسام اور ان کی تعریفات کا معلوم ہونا ضروری ہے جو کہ درج ذیل ہیں:

(1)ذمی

"ذمی" سے مراد وہ غیر مسلم افراد ہیں جوکسی اسلامی ملک میں اس ملک کے قوانین کی پاسداری کاعہد کرکے وہاں سکونت اختیار کریں۔

(2)مستامن:

" مستامن" سے مراد وہ غیر مسلم باشندے ہیں جوتجارت یاکسی اور غرض سے کسی اسلامی مملکت میں عارضی طور پر اجازت(ویزہ )لے کرآئے ہوں۔

(3)معاہد:

"معاہد" سے مراد وہ غیر مسلم افراد ہیں جو اپنے ملک میں رہتے ہوئے مسلمانوں سے شرائط کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیں، اسی طرح وہ غیر مسلم افراد بھی معاہد کہلاتے ہیں جو کسی معاہدے یاشرط کے ساتھ مسلمانوں کے ملک میں عارضی طور پر سکونت اختیار کریں۔

(4)حربی:

"حربی " سے مراد وہ کافر ہیں جن سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ گواہی دینے کے لیےحربی کافر کا مستامن یا معاہد بن کر دار الاسلام میں آنا ضروری ہوگا،کیونکہ گواہی کے لیے مجلسِ قضا ضروری ہے اور مجلسِ قضا کے لیے دارالاسلام کا ہونا شرط ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد واضح رہے کہ غیر مسسلم کی گواہی  مسلمان کے خلاف  بالاتفاق قبول نہیں ہوگی،غیر مسلم چاہے ذمی ہو  ،مستامن ہو،   معاہد  ہویا حربی ہو۔

البتہ غیر مسلم کی گواہی غیر مسلم کے خلاف قبول  ہوگی یا نہیں؟اس بارے میں ائمہ کرام کے مختلف اقوال ہیں،جو کہ درج ذیل ہیں:

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ كے نزديك  ذمی کی گواہی ذمی  پر مطلقاً مقبول ہوگی،خواه ان كا  مذہب اور ملت ايك ہو یا جدا جدا ہو،لیکن شرط یہ  ہے کہ  ذمی عادل  ہو۔

اسي طرح ذمی کی گواہی حربی مستامن یا معاہد پر مقبول ہوگی،لیکن حربی مستامن یا معاہد کی گواہی ذمی پر مقبول نہیں ہوگی۔

نيز ایک حربی مستامن یا معاہد کی گواہی دوسرےحربی مستامن یا معاہد پر اس وقت مقبول ہوگی، جب کہ وہ دونوں ایک ہی ملک کے باشندے ہوں،ورنہ مقبول نہیں ہوگی۔

امام شافعی،مالک اور احمد رحمھم  اللہ   كےنزديك  غير مسلم كي  گواہی غير مسلم پر مطلقًا مقبول نهيں  ہوگی،غير مسلم خواه  ذمی  ہو یا حربی مستامن یا معاہد ہو،اسي طرح ان كے  مذاہب اور  ملتيں ايك  ہوں يا جدا جدا  ہوں۔

علامہ ابن ابی لیلیٰ اور ابو عبیدہ رحمھما اللہ کے نزدیک ذمی کی گواہی ذمی پر اس وقت مقبول ہوگی جب کہ ان کا مذہب اور ملت ایک ہو،ورنہ مقبول نہیں ہوگی،مثلا یہودی کی گواہی یہودی پر تو مقبول ہوگی لیکن نصرانی پر مقبول نہیں ہوگی۔

نیز غیرمسلم  کی ایک قسم اور بھی ہے جو کہ درج ذیل ہے:

مرتد:یہ وہ شخص ہے جو اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھر جائے۔

اس کی گواہی کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اس کی گواہی کسی پر بھی مقبول نہیں ، نہ اپنے جیسے مرتد پر اور نہ کسی دوسرے کافر پر۔

التفسیر المظہری میں ہے:

"و لايجوز شهادة كافر على مسلم اجماعًا، و كذا لايجوز شهادة الكفار بعضهم على بعض عند مالك والشافعي واحمد لانه فاسق قال الله تعالى والكافرون هم الظالمون،وعند ابى حنيفة يجوز شهادة الكفار بعضهم على بعض وان اختلف ملتهم لان الذمي من اهل الولاية بخلاف العبد بدليل ولاية الذمي على أولاده الصغار وقال الله تعالى بعضهم أولياء بعض وبدليل مالكيته وكفره فسق في نفس الأمر واما في زعمه فديانة والكذب حرام في الأديان كلها،و قال ابن ابى ليلى وابو عبيدة مع اختلاف الملة لا تقبل شهادتهم كشهادة اليهودي على النصراني."

(ج:1/ص:421،422/ط:مکتبۃ الرشدیہ)

العنایہ فی شرح الہدایہ میں ہے:

"قال: (و تقبل شهادة أهل الذمة بعضهم على بعض إلخ) شهادة أهل الذمة بعضهم على بعض مقبولة عندنا وإن اختلفت مللهم كاليهودي مع النصراني،وقال ابن أبي ليلى: إن اتفقت مللهم قبلت (و قال مالك و الشافعي: لاتقبل؛ لأنه فاسق، قال الله تعالى: {والكافرون هم الظالمون} [البقرة: 254] والظالم فاسق (فيجب التوقف في خبره) لقوله تعالى {إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا}[الحجرات: 6] وصار كالمرتد ولا تقبل شهادة المرتد لجنسه ولخلاف جنسه۔قال (ولا تقبل شهادة الحربي على الذمي إلخ) لا تقبل شهادة الحربي على الذمي. قال المصنف (أراد بالحربي المستأمن) وإنما قال ذلك؛ لأن شهادة الحربي الذي لم يستأمن على الذمي غير متصورة؛ لأنها تكون في مجلس القضاء ومن شرط القضاء المصر في دار الإسلام (و تقبل شهادة المستأمنين بعضهم على بعض إلخ) المستأمنون في دارنا لا يخلو إما أن يكونوا من دار واحدة أو لا، فإن كان الأول قبلت شهادة بعضهم على بعض، وإن كان الثاني كالترك والروم لم تقبل؛ لأن اختلاف الدارين يقطع الولاية كما مر ولهذا يمنع التوارث."

(کتاب الشھادات،باب من تقبل شھادتہ ومن لا تقبل،ج:7،ص:420۔416،ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لاتقبل شهادة الكافر على المسلم، كذا في محيط السرخسي،تقبل شهادة أهل الذمة بعضهم على بعض، وإن اختلفت مللهم بعد أن كانوا عدولا هكذا في البدائع،أما شهادة المرتد والمرتدة فقد اختلف المشايخ فيها، فقال: بعضهم تقبل على الكفار، وقال بعضهم تقبل على مرتد مثله والأصح أنها لا تقبل على كل حال هكذا في المحيط."

(کتاب الشھادات،الباب العاشرفی شھادۃ اھل الکفر،،ج:3،ص:517/ط:رشیدیہ)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"و أجاز الحنفية خلافاً للجمهور شهادة أهل الذمة بعضهم على بعض إذا كانوا عدولاً في دينهم، وإن اختلفت مللهم كاليهود والنصارى ، لما روى ابن ماجه عن جابر بن عبد الله: «أن النبي صلّى الله عليه وسلم أجاز شهادة أهل الكتاب بعضهم على بعض»  وفي بعض رجاله مقال،ولا تقبل شهادة الحربي المستأمن على الذمي؛ لأنه لا ولاية له عليه؛ لأن الذمي من أهل ديارنا، وهو أعلى حالاً منه. وتقبل شهادة الذمي على الحربي المستأمن، كما تقبل شهادة المسلم عليه وعلى الذمي. وتقبل شهادة المستأمنين بعضهم على بعض إذا كانوا أهل دار واحدة."

(ج:8،ص:6036،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں