بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کے لنگر سے کھانا کھانے کا حکم


سوال

اگر کسی غیر مسلم کا لنگر لگا ہو کسی مجبوری کی وجہ سے کھانا کھا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں گوشت کے معاملے میں بہت احتیاط کرنے کی تاکید آئی ہے، کسی بھی جانورکا ذبیحہ شرعاً درست ہونے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ منجملہ ان شرائط کے یہ بھی ہے جانورکوذبح کرنے والا مسلمان ہو یااپنے دین اورمذہب سے واقف اہل کتاب یہودونصاریٰ ہوں جوکہ اپنے مذہب کے اصول پر کاربند ہو پیغمبر اورآسمانی کتابوں کا ماننے والاہو، اور جانورکو اللہ کانام لے کر ذبح کرتاہو، ذبح کے وقت اللہ کے علاوہ کسی اورکا نام نہ لیتا ہو، ایسے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اوراس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اکثراہل کتاب ملحد، بددین، دہریہ ہیں۔ صرف نام کے اہل کتاب ہیں، ان کے اقوال و افعال سے معلوم ہوتاہے کہ وہ مذہب سے بیزار ہیں تو ایسے یہودونصاریٰ کو اہل کتاب کہنا چونکہ مشکل ہے اس لیے ان کاذبیحہ کھانے سے احتیاط کی ضرورت ہے۔ بس اگر حلال اورغیر مشتبہ گوشت مرغی جب باآسانی میسربھی ہےتو اس کو چھوڑکرمشتبہ اورغیرحلال شدہ گوشت کواختیارکرنا کسی طورسے جائز نہیں، اس سے اورایسے نام نہاد اہل کتاب کے ذبیحہ سے مکمل طورپراحتراز کرنا ضروری ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں غیر مسلم کے لنگر کا کھانا اگر گوشت ہو جب تک اس کے حلال ہونے کا یقین نہ ہو اس کا کھانا جائز نہیں ،البتہ حالت اضطرار (اگر نہ کھائے تو جان جانے کا خطرہ ہو)میں صرف زندہ رہنے کے بقدر کھاسکتے ہیں،اور اگر لنگر کا  کھانا گوشت کے علاوہ ہو اور  کھانا و برتن پاک ہوں اور ظاہری نجاست بھی نہ لگی ہو تو  مجبوری کی حالت میں  کھا سکتے ہیں، لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے۔لیکن اگر  غیر مسلم نے  کھانے کی اشیاء  اپنے باطل  معبودوں دیوتاؤں کے نام پر چڑھائی ہو  تو ان کا کھانا بھی جائز نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما۔۔۔۔۔۔ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط".

(کتاب الکراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم،347/5، ط: دار الفکر)

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"والذكاة اختيارية، وهي ‌الذبح ‌في الحلق واللبة. واضطرارية، وهي الجرح في أي موضع اتفق؛ وشرطهما التسمية، وكون الذابح مسلما أو كتابيا..."

 (کتاب الذبائح،5/ 9،ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال: اگر کسی مسلمان کے رشتہ دار ہندو کے گاؤں میں رہتے ہوں اور ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ پکوان، پوری، کچوری وغیرہ پکاتے ہیں، ان کا کھانا ہم لوگوں کو جائز ہے یا نہیں؟

جواب:جوکھانا کچوری وغیرہ ہندو کسی اپنے ملنے والے مسلمان کو دیں اس کا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے لے لیا تو شرعاً اس کھانے کو حرام نہ کہا جائے گا۔"

(ج:۱۸،ص:۳۴، ط:فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں