بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مفتی شخص کا مسائل بتانے کا حکم


سوال

کیا ایک دینی طالب علم جو پانچ سال درس نظامی اچھے سے پڑھا ہو اور اب بی ایس شریعہ اسلامیہ کر رہا ہو، نور الایضاح، قدوری شریف ، کنز الدقائق باقاعدہ مفتیان کرام سے پڑھی ہوں اور بہارِ شریعت، فقہی علوم وغیرہ بھی ضرورتاً پڑھتا رہتا ہو اور اب مسائل کا فرق جانتا ہو، یعنی اسے معلوم ہو کہ تھوڑی سی تبدیلی سے نوعیت بدل جاتی ہے ،تو ایسا شخص وہ مسائل جن کا اسے سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ یہ بالکل ایسے ہیں، لوگوں کو بتا سکتا ہے یا نہیں ؟اس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک گروپ میں یہ سلسلہ شروع کیا ہے، اور آگے وہ خود بھی مفتی بننا چاہتا ہے، کیونکہ ایسے شخص کے خاندان میں کوئی عالم بھی نہیں، نہ کوئی مفتی ہے ،اور لوگوں کو بالکل بنیادی معاملات کپڑے پاک کرنے، نماز ،روزہ، نکاح، طلاق کے مسائل بھی معلوم نہیں ہیں ،اور اس طالب علم کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ لوگوں کو بہت سی غلطیاں کرتے ہوئے خود دیکھا ہے، اور اکثر تو اب بڑی عمر کے لوگ ہیں جو انٹرنیٹ وغیرہ سے ناآشنا ہیں کہ کسی اچھی ویب سائٹ سے کوئی متعلقہ مسئلہ معلوم کر لیں، ایسی صورت میں اس طالب علم کا انہیں وہ مسائل جن کا اسے جواب بالکل ٹھیک آتا ہو بتانا کیسا ہے؟، چوں کہ جو جوابات نہیں آتے باقاعدہ اپنے اساتذہ سے پوچھ کر آگے بتاتا ہے، اور یہ بھی کنفرم ہے کہ اگر لوگوں کو مسائل نہیں بتائے گا تو کوئی دوسرا آدمی وہاں ایسا نہیں ہے جو انہیں باقاعدہ چیزیں بتاۓیا جس سے وہ دین سیکھیں اور آئندہ تیس چالیس برس تک بھی اس علاقے میں ایسی کوئی فکر نہیں پنپنے والی جو انہیں جھنجھوڑ کر دین کی طرف لائے الا ما یشاء اللہ۔

جواب

مسائلِ شرعیہ   بتلانے میں لوگوں کی راہ نمائی کرنا جہاں نہایت عظیم الشان کام اور باعثِ اجر و ثواب ہے  وہیں نہایت نازک معاملہ بھی ہے،اس لیے کہ مسائل بتانے والے کی حیثیت اللہ اور بندوں کے درمیان واسطے کی ہے ، اگر وہ صحیح مسئلہ بتاۓ گا تو اجر و ثواب کا مستحق ہوگا، اور اگر خدا نخواستہ غلط مسئلہ بتاۓ گا تو اس کا وبال اور گناہ بھی اسی کے ذمے ہوگا،اس لیے مسائل بتانے میں نہایت ہی  احتیاط لازم ہےاور جب تک مسئلہ  مکمل طور پرمعلوم نہ  ہو اس وقت تک مسئلہ نہیں بتانا چاہیے،اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ صرف فقہ کی ابتدائی چندکتابیں پڑھ لینے سے مسائل کا مکمل علم اور ان  میں  مہارت حاصل نہیں ہوجاتی ،بلکہ    مسائل  میں مہارت کے لیے جہاں فقہ کے  قدیم وجدید مآخذ کا وسیع وعمیق مطالعہ ضروری ہے،  وہیں اس سے زیادہ مستند وماہر مفتیانِ کرام کی سرپرستی اور تربیت ضروری ہے، شرعی  مسائل میں ایسے  بہت  سے امور  ہیں جن کا ادراک  ممارست اور مسلسل تجربے کا تقاضہ کرتا ہے، اور ان امور کی انجام دہی کسی  مستند دارالافتاء  سے  وابستہ مفتی ہی  کرسکتاہے، لہذا مذکورہ شخص اگر  واقعتاً پختہ عالم ہے اور اس کے علاقے میں اور کوئی دوسرا شخص  دین کا  صحیح علم رکھنے والا موجود نہیں ہے  تو   غیر مفتی عالم بوقتِ ضرورت اس شرط کے ساتھ  مسئلہ  آگے بیان  کرسکتا ہے کہ جب اسے مسئلے سے متعلق مکمل طور پر  علی وجہ البصیرت یقینی اور صحیح  علم ہو یا   اہلِ حق کی کسی مستند  کتاب میں  مسئلہ دیکھا ہو یااہل ِحق کے کسی مستندمفتی صاحب سے مسئلہ معلوم کیا ہو  اور مسئلہ اچھی طرح سمجھ بھی چکا ہو  یا جواب کی تصدیق  کسی مستند مفتی یا دار الافتاء سے کرچکا ہو،اور وہ  مسئلہ قرآن و سنت اور شریعت کے بالکل  سو فیصد مطابق ہو ،اس میں شرک و بدعت کی کسی قسم کی آمیزش نہ ہو ، اہل ِ سنت والجماعت کے طریقے سے  سرِ مو منحرف نہ ہواور پھر مسئلہ بعینہ آگے نقل کرے،اور   ساتھ  ہی  اس سائل کو کسی مستند مفتی  یا مستند عالمِ دین سے رجوع کا مشورہ بھی دیا جاۓ، یا مسئلہ بتانے سے پہلے کسی مستند اور پختہ کار مفتی سے اس مسئلے کی تصدیق کروالی جاۓ کہ سائل کے اس سوال کے جواب میں فلاں  فتویٰ بطورِ جواب درست ہوگا یا نہیں ؟،غیر عالم شخص کا مستقل یہ  معمول بنالینا کہ لوگوں کے مسائل سن کر ان کے جوابات دے ، اس میں خطا  کا غالب امکان ہے، لہٰذا مستند مفتی یا   پختہ عالم کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو مستقل مسائل نہیں بتانے چاہییں، اور جو مسائل سمجھ نہ آئیں یا ان میں اشتباہ ہو، ان کا جواب نہیں دینا چاہیے، بلکہ کسی مستند دار الافتاء یا مفتی صاحب سے رجوع کرکے عوام الناس کی راہ نمائی کرنی چاہیے۔

قرآن مجید میں ارشادِباری تعالی ہے:

" فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ."

ترجمہ:"سو اگر تم کو علم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ دیکھو."

(بیان القرآن،45/6،ط:میر محمد)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"فإنما ‌شفاء ‌العي السؤال."

ترجمہ:"لا علمی کا علاج  سوال ہی ہے."

(کتاب الطهارۃ،باب في المجروح یتیمم،201/1،رقم:336،ط:بشری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100744

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں