میں ایک یوٹیوب چینل میں اینکر پرسن کی جاب کرتا ہوں ، مجھے اکثر خواتین کے انٹرویوز بھی کرنا پڑتے ہیں، جیسا کہ کوئی قتل یا حادثہ ہو تو خواتین سے واقع کے حقائق جاننے کے لیے اُن کا انٹرویو لینا پڑتا ہے، بعض خواتین تو سر پہ دوپٹہ لیتی ہیں اور بعض نہیں لیتی، میری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کا چہرہ نہ دیکھوں اور متعلقہ سوال پوچھوں، مگر جب وہ ویڈیو یوٹیوب پہ اَپ لوڈ ہوتی ہے تو لوگ دیکھتے ہیں ، اب جن خواتین نے سر کو ڈھانپا نہیں ہوتا، اور میں اُن کا انٹرویو کرتا ہوں ،تو کیا اس کا گناہ مجھے بھی ہو گا؟
واضح رہے کہ مرد کا بلاضرورتِ شرعیہ عورت سے بات چیت کرنا جائز نہیں ہے، اگر ضرورت پڑجائے تب بھی پردہ کی حالت میں بقدر ِ ضرورت گفتگو کی گنجائش ہے۔
لیکن سائل کا عورتوں سے انٹرویو لینا متعدد مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ ایک تو یہ کہ اکثر خواتین بے پردہ ہوتی ہیں، اور بے پردہ خاتون سے بات چیت جائز نہیں ، نیز سر کا ڈھانپ لینا بھی پردہ کے لیے کافی نہیں ، لہذا انٹرویو کے ناجائز ہونے کے لیے سر پر دوپٹہ لینا اور نہ لینا دونوں برابر ہیں۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ نامحرم عورت سے بات کرنے کی اجازت بقدرِ ضرورت جائز ہے، جب کہ ذکرکردہ صورت ضرورت کے تحت نہیں آتی، سائل کو چاہیے کہ اس سے مکمل اجتناب کریں۔
مزید برآں یہ کہ عورت کے انٹرویو لینے سے قطع نظر سائل کی مذکورہ ملازمت سرے سے جائز ہی نہیں ہے؛ اس کی بنیادی وجہ سائل کا ویڈیو بنوانا ہے، اور جاندار کا تصویر یا وڈیو میں آنا حرام ہے، اس پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ یوٹیوب کے ذریعہ آمدنی کا حلال ہونا چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے، جن کا لحاظ رکھنا یوٹیوب انتظامیہ کی موجودہ پالیسی کے مطابق ممکن نہیں ہے، ان شرائط میں جاندار کی تصویر سے خالی ہونا، غیر شرعی اشتہارات کا نہ آنا، ویڈیو کا موسیقی اور میوزک سے خالی ہونا، غیر شرعی معاہدات کا نہ کرنا، وغیرہ شامل ہیں، نیز اس میں ناجائز اشتہارات دے کر اس کی آمدنی حاصل کی جاتی ہے، جس کا مخصوص حصہ چینل والوں کو بھی ملتا ہے، جس سے چینل والے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیتے ہیں۔
مذکورہ ملازمت میں ان مفاسد کا شامل ہونا یقینی بات ہے، جس سے سائل کی حاصل شدہ آمدنی کے حرام ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا، لہذا عورت تو کیا مردوں سے بھی اس طرح انٹرویو لینا کہ یوٹیوب پر نشر کیا جائے، جائز نہیں ہے۔
ایمانی غیرت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ایسی ملازمت ہی نہ کی جائے جس میں حرام کمائی کا عنصر غالب ہو، لہذا سائل کو چاہیے کہ کسی اور جگہ ملازمت کی تلاش و جستجو میں رہے اور اس اینکر پرسن کی ملازمت کو ترک کرے؛ اس کام میں صرف عورتوں سے بات چیت ہی نہیں ہوتی، بلکہ ویڈیو بنانے کا گناہ الگ ملتا ہے، کمائی بھی حرام ہے، لہذا ایسی ملازمت سے مکمل احتراز ضروری ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:
"عن مسلم قال: كنا مع مسروق في دار يسار بن نمير فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إنّ أشدّ الناس عذابًا عند الله المصورون.
عن نافع: أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم."
(كتاب اللباس،باب عذاب المصورين يوم القيامة، ج:2، ص:880، ط: قدیمی)
تفسیر قرطبی میں ہے:
" قولہ : وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن ۔۔۔فأمر الله سبحانه وتعالى المؤمنين والمؤمنات بغض الأبصار عما لا يحل، فلا يحل للرجل أن ينظر إلى المرأة ولا المرأة إلى الرجل، فإن علاقتها به كعلاقته بها، وقصدها منه كقصده منها. وفي صحيح مسلم عن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنى أدرك ذلك لا محالة فالعينان تزنيان وزناهما النظر … ) الحديث. وقال الزهري في النظر إلى التي لم تحض من النساء: لا يصلح النظر إلى شي منهن ممن يشتهى النظر إليهن وإن كانت صغيرة."
(سورۃ النور، آیة:31، ج:12، ص:226، ط: دار الكتب المصرية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: و لايكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا۔ انتهى.
(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لا يشمّتها، ولا يرد السلام بلسانه۔ قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلّم الرجل أولاً، وإذا سلّمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه، و كذا الرجل إذا سلّم على امرأة أجنبية، فالجواب فيه على العكس. اهـ."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج:6، ص:364، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضاً:
"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: استماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام؛ لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج:6، ص:348، ط: دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144511102188
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن