بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر محرم عورت سے بات چیت کرنا


سوال

غیر محرم عورت جسے   میں نے اپنی  بہن  بنایا ہے ،ایسی   شاگردہ سے خیریت حال احوال  پوچھنا جائز ہے؟یا فیملی کے بارے میں ضروری باتیں کرنا بقدرِ ضرورت جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

مرد کے لیے نامحرم عورت سے بلاضرروت گفتگو، ہنسی مذاق اور بے تکلفی کرنا جائز نہیں، نیز یہ عمل فتنہ کا موجب ہے، لہٰذا جہاں ضرورت ہو وہاں بھی پردے کے اہتمام کے ساتھ صرف بقدرِ ضرورت گفتگو کی جائے، اور جانبین سے لہجے سنجیدہ رہیں، خصوصًا عورت اپنے لہجے میں نرمی نہ لائے۔

ضرورت کا لفظ "ضرر" سے  ہے، اور ضرر نقصان کو کہتے ہیں، شرعاً اس کا اطلاق جانی اور مالی دونوں نقصانات پر ہوتاہے، یعنی اگر وہ کام نہ کیا جائے تو جانی یا مالی نقصان کا واقعی خطرہ ہو۔

نیز بعض اہل علم کی تصریحات کے مطابق ضرورت میں وہ صورت شامل ہے جہاں دینی یا دنیاوی مصالح اس پر موقوف ہوں؛ لہذا جہاں ایسی صورت پائی جاتی ہو وہاں نامحرم سے بات کرنے کی اجازت ہوگی، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حاجتِ شدیدہ کی صورت میں بقدرِ ضرورت گفتگو کی اجازت ہے۔ اس تفصیل کی روشنی میں  ہر شخص جس معاملے میں مبتلی بہ ہو اس کے لحاظ سے خود یہ جان سکتا ہے کہ آیا یہاں ضرورت پائی جارہی ہے یا نہیں۔ اگر ایسی ضرورت پائی جارہی ہو کہ اس گفتگو کے بغیر دینی یا دنیوی مصالح فوت ہوتے ہوں تو وہاں گفتگو کی اجازت ہوگی، اور جہاں ایسی ضرورت نہ ہوں وہاں گفتگو کی اجازت نہیں۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل  کا کسی  نامحرم لڑکی سے  بلا ضرورت شرعیہ بات چیت (گپ شپ) کرنا بالکل ناجائز ہے، اور بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہونے کا پیش خیمہ بھی ہے؛ لہٰذا اجتناب لازم ہے،ہاں ضرورت کے موقع پر  پردہ  کے اہتمام کے ساتھ  بات کرنے کی اجازت  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

''فإذا ‌نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا ‌نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذالم يجز أن تؤذن المرأة''.

(‌‌کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة، ج: 3، ص: 72، ط: سعید)

الأشباه والنظائر میں ہے:

"فائدة  قال بعضهم المراتب خمسة ضرورة وحاجة ومنفعة وزينة وفضول فالضرورة بلوغه حدا إن لم يتناوله الممنوع هلك أو قارب وهذا يبيح تناول الحرام والحاجة كالجائع الذي لو لم يجد ما يأكله لم يهلك غير أنه يكون في جهد ومشقة".

(ج: 1، ص: 85، ط: دارالکتب العلمیة بیروت)

شرح تنقيح الفصول میں ہے:

"وعرفها الشاطبي بأنها:"مالابد منها في قيام مصالح الدين والدنيا بحيث إذا فُقِدت لم تَجْرِ مصالح الدنيا على استقامةٍ ، بل على فسادٍ وتهارجٍ وفوت حياةٍ ، وفي الأخرى: فوت النجاة والنعيم ، والرجوع بالخسران المبين."

 (ج: 3، ص: 45، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں