ہماری کچھ زمین ہے، جس پر کسی شخص نے ہماری اجازت کے بغیر خود ہی درخت لگادیے، درخت بڑھنے پر اس شخص نے مجھے 25 ہزار روپےدیے، اب مجھے پوچھنا یہ ہے کہ ان پیسوں کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ آیا زمین کے اعتبار سے عشر دیں گے یا پھر سالانہ پیسوں کی آمدن کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں گے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کی زمین پر کسی اور شخص کا یوں مالک کی اجازت کے بغیر درخت لگانا جائز ہی نہیں تھا، تاہم درخت لگانے کے بعد سائل کو اس شخص نے رقم دی، اور سائل اس رقم پر رضامند بھی تھا، تو اس صورت میں یہ اجارہ(کرایہ کا معاملہ) کہلائے گا، یعنی سائل نے کچھ پیسوں کی اجرت کے بدلے اپنی زمین دوسرے شخص کو اجارے پر دے دی ہے، اس صورت میں بھی سائل اور مذکورہ شخص کو چاہیے کہ ہرماہ یا سال کےلیے کرایہ طے کرلے، اور کرایہ کے دیگر تمام معاملات کی پاسداری بھی کریں، کرایہ طے ہوجانے کے بعد مذکورہ زمین سائل کی اور درخت، درخت لگانے والے ہی کی ملکیت شمار ہوں گے۔
نیز اس صورت میں سائل کے ذمہ مذکورہ زمین کی عشر دینا لازم نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ پیداوار سائل کی ملکیت ہی نہیں ہے، البتہ زمین کا جو 25 ہزار روپے کرایہ وصول ہوتا ہے، سائل کے زکوۃ ادا کرنے کی تاریخ تک یہ رقم موجود رہے، تو سائل کے دیگر مال کی طرح اس کرایہ کی رقم پر بھی زکوٰۃ لازم ہوگی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر (وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه).
(قوله بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير."
(کتاب الغصب، ج: 6، ص: 194، ط: سعید)"
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"(وأما شروط وجوبها فمنها)الحرية حتى لا تجب الزكاة على العبد ...... ومنها الإسلام حتى لا تجب على الكافر ...... (ومنها العقل والبلوغ) فليس الزكاة على صبي ومجنون إذا وجد منه الجنون في السنة كلها ...... (ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه هكذا في العيني شرح الكنز ...... ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد ...... (ومنها الفراغ عن الدين)."
(کتاب الزکوٰۃ، الباب الاول، ج: 1، ص: 71،72، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407100154
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن