بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر عالم امام کی موجودگی میں کمیٹی والوں کے کہنے پر مقامی عالم کا نماز کے بعد مسائل بیان کرنے کا حکم


سوال

 میں جس محلے میں رہتا ہوں اس کی مسجد میں ایک حافظ صاحب امام ہیں جو عالم نہیں ہیں  اور میں چوں کہ درس نظامی سے فاضل اور ایک مدرسے میں مدرس ہوں اس لیے مسجد کمیٹی کے اصرارپر اس مسجد میں مسائل بیان کرتا ہوں؛ لیکن میری ذاتی مصروفیات کی وجہ سے مغرب کے علاوہ کسی بھی نماز کے لیےاس مسجد میں حاضر ہونا ممکن نہیں ہوتا اور مغرب میں نمازیوں کی تعداد بھی دوسری نمازوں کی بنسبت زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا میرا سوال یہ ہے کہ کیامیں مغرب کے فورا بعد دو سے چار منٹ کے لیے مسائل بیان کر سکتا ہوں؟ جب کہ میرے علاوہ کوئی بھی عالم دین یہاں میسر نہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مغرب  کی نماز  کے بعد  سنتیں ہیں ،لہذا سلام کے بعد مختصر دعا کرکے سنتوں میں مشغول ہوجانا مسنون وافضل ہے، طویل دعا ،اذکار اورمسائل بیان کرنے میں مشغول ہوکر سنتوں میں تاخیرکرنا خلاف سنت ہے، اور اگر فرض اور سنتوں کے درمیان اجتماعی طور پر کوئی عمل اختیار کیا جائے اور اس میں جہر بھی ہو جس کی وجہ سے مسبوق حضرات کی نمازوں میں خلل ہوتا ہو اوران کا خشوع وخضوع متأثر ہوتا ہو تو یہ اور بھی زیادہ برا ہے،، لہٰذا  مستند ومعتبر دینی مسائل بیان کرنے کا نظام فرض اور سنت کے درمیان میں رکھنے کے بجائے سنتوں کے بعد رکھا جائے، ان شاء اللہ طالب حضرات اس وقت بھی شرکت کریں گے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"و في حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرهاإلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارىء ..."

(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار،560/1 ط:سعید)

و فیه أیضًا:

"و قد حرّر المسألة في الخيرية و حمل ما في فتاوى القاضي على الجهر المضر و قال: إن هناك أحاديث اقتضت طلب الجهر و أحاديث طلب الإسرار، و الجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال، فالإسرار أفضل حيث خيف الراء أو تأذي المصلين أو النيام و الجهر أفضل حيث خلا مما ذكر؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر و يصرف سمعه إليه و يطرد النوم و يزيد النشاط اهـ ملخصًا."

(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار،398/6 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں