1۔ دو تین سال قبل ایک لڑکے کا صرف نکاح ہوا تھا اور رخصتی نہیں ہوئی تھی، پھر جب رخصتی اور شادی کی تاریخ طے ہو گئی تو اس کے ایک ہفتہ بعد لڑکی نے شادی سے بغیر کسی وجہ کے انکار کر دیا، اور لڑکے سے مطالبہ کرنے لگی کہ مجھے چھوڑ دو یعنی طلاق دے دو، لڑکا طلاق دینے پر راضی نہیں ہے تو لا محالہ لڑکی خلع لے گی، مسئلہ یہ ہے کہ خلع لینے کی صورت میں لڑکی مہر کی حق دار ہوگی یا نہیں؟
2۔ اسی طرح لڑکے کا یہ کہنا ہے کہ نکاح، عیدین، اور دیگر مواقع پر جو میرا خرچ ہوا ہے وہ مجھے لوٹا دو، تو کیا لڑکے کا یہ مطالبہ درست ہے، کیونکہ ہم نے یہ سنا ہے کہ خلع کی صورت میں لڑکا جو مطالبہ کرے لڑکی کو ادا کرنا ہوگا، پھر ادائیگی کی صورت میں لڑکی خلع لے سکتی ہے۔ قرآن و حدیث اور شریعت مطہرہ کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل بتا کر شکر گزاری کا موقع عنایت فرمائیں۔
واضح رہے کہ خلع ایک عقد ہے، میاں بیوی کی رضامندی پر تام ہوجاتا ہے، لہذا اگر خلع کی ضرورت پیش آجائے اور نافرمانی بیوی کی طرف سے ہو اور وہ خلع کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں شوہر اپنی بیوی کو حق مہر کے عوض خلع دے سکتا ہے، البتہ حق مہر سے زائد بدل خلع کا مطالبہ کرنا مکروہ ہے، اور اگر نافرمانی شوہر کی جانب سے ہو تو پھر اس کے لیے اپنی بیوی سے حق مہر لینا،اور اگر پہلے سے نہیں دیا ہو تو اسے معاف کروانا مکروہ ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکا خلع دینے پر راضی ہے تو وہ حق مہر کے عوض خلع دے سکتا ہے،تو پھر بیوی پر شوہر کو حق مہر واپس کرنا ضروری ہوگا، اور اگر شوہر نے پہلے سے حق مہرادا نہیں کیا ہے تو بیوی کا اسے حق مہر معاف کرنا ضروری ہوگا، لیکن حق مہر سے زائد بدل خلع کا مطالبہ کرنا شوہر کے لیے ناجائز اور مکروہ ہے۔
2۔ باقی لڑکے کا لڑکی سے یہ مطالبہ کرنا کہ عیدین یا دیگر مواقع پر جو رقم خرچ ہوئی ہے اب اسے لوٹا دو تو لڑکے کا لڑکی سے یہ مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول ... وحضرة السلطان ليست بشرط لجواز الخلع عند عامة العلماء فيجوز عند غير السلطان وروي عن الحسن وابن سيرين أنه لا يجوز إلا عند السلطان، والصحيح قول العامة لما روي أن عمر وعثمان وعبد الله بن عمر رضي الله عنهم جوزوا الخلع بدون السلطان، ولأن النكاح جائز عند غير السلطان فكذا الخلع".
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، 3/ 145، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضا:
"وإن كان النشوز من قبلها فلا بأس بأن يأخذ منها شيئا قدر المهر لقوله تعالى: {إلا أن يأتين بفاحشة مبينة} [النساء: 19] أي: إلا أن ينشزن، والاستثناء من النهي إباحة من حيث الظاهر، وقوله {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] ؛ قيل أي: لا جناح على الزوج في الأخذ وعلى المرأة في الإعطاء. وأما الزيادة على قدر المهر ففيها روايتان ذكر في كتاب الطلاق أنها مكروهة وهكذا روي عن علي رضي الله عنه أنه كره للزوج أن يأخذ منها أكثر مما أعطاها وهو قول الحسن البصري وسعيد بن المسيب وسعيد بن جبير وطاوس. وذكر في الجامع الصغير أنها غير مكروهة - وهو عثمان البتي - وبه أخذ الشافعي."
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب الطلاق، باب حكم الخلع، (3/ 150)، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102410
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن