بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

بند گلی میں کوئی ایک گھر گلی کا حصہ اپنے مکان میں شامل کرنے کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ میں نے کسی کالونی میں 5000 میٹر کے پلاٹ خریدے، اس نیت سے کہ  بچوں کی دینی تعلیم کے لیے ایک مسجد ومدرسہ تعمیر کروں، اور ایک مکان بناؤں اپنے اہل وعیال کے لیے، مذکورہ کالونی میں جو پلاٹ خریدے وہ چار دیواری کے اندر تھے، اس چار دیواری کے دونوں اطراف دیگر پلاٹ ہیں،چار دیواری میں پلاٹوں کے درمیان گزرگاہ کے طور پر 8 میٹر چوڑی گلی بنائی گئی ہے، اس گزر گاہ کے دونوں اطراف پلاٹ ہیں، ایک طرف کے پلاٹ مکمل میں نے خریدے ہیں، جب کہ دوسری طرف کے پلاٹوں میں سے گلی کے آخر والا پلاٹ میں نے خریدا، جس سے آگے  گلی بند ہے، یہ سارے پلاٹ ملاکر 5140 مربع میٹر ہوئے۔

بعد ازاں اس میں سے 4600 مربع میٹر پر مسجد ومدرسہ تعمیر کیا بقیہ پلاٹ 500 مربع میٹر پر مکان تعمیر ہوا، پلاٹوں کے درمیان جو 8 میٹر چوڑ ی گلی ہے میرے مکان کے پاس پہنچ کر آگے کی طرف بند ہے، اس کے آگے راستہ نہیں کیوں کہ آگے زرعی زمینیں ہیں وہ اپنی زمین میں سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے،اور 8 مربع میٹر چوڑی گلی دونوں اطراف کے پلاٹ والوں کی برابری میں جاگیر ہے یعنی 4 میٹر ایک طرف کے پلاٹ والوں نے اور 4 میٹر دوسری طرف کے پلاٹوں والوں نے قیمت  ادا کی ہے، یعنی ہر پلاٹ کے ساتھ یہ 4  میٹر گزر گاہ بھی خریدنی ہوتی ہے، لیکن اس گزرگاہ کو تعمیر میں شامل نہیں کرسکتے، یہ فقط راستہ کے لیے استعمال ہوگا۔

اس گزرگاہ کی ایک طرف کے پلاٹ تقریبا 4600 مربع میٹر ہے جس پر میں نے مسجد ومدرسہ تعمیر کیا،گزرگاہ کے دوسری طرف 500 مربع میٹر پلاٹ پر مکان تعمیر ہوا، یعنی گزرگاہ کے ایک طرف مسجد ومدرسہ ہے دوسری طرف میرا مکان ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ میرے مکان کے پاس آکر یہ گزرگاہ بند ہوجاتی ہے اس سے آگے راستہ نہیں۔

لہذا میں نے 8 میٹر چوڑی گلی کا پورا 8 میٹر وہ حصہ جو میرے مکان کے سامنے ہے  مکان میں نے شامل کرلیا، کیوں کہ آگے تو راستہ بند ہے، اور میرے مکان کے سامنے والا  یہ 8 میٹر دونوں طرف سے میں نے خریدا ہے، یعنی دونوں طرف میرے مکان ہے ایک طرف  مدرسہ ہے اس کے لیے 4 میٹر خریدا،  اور دوسر ی طرف میرا  مکان ہے اس کے لیے 4 میٹر خریدا، تو اب  یہ 8 میٹر گزرگاہ  اس 500 مربع میٹر پلاٹ میں شامل ہے جو  میں نے تعمیر کے لیے لیا تھا، مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر تمام بچوں کی اجازت سے یہ مکان اپنے ایک بچہ کو ہبہ کردیا، اس بات کو تقریبا 8 سال گزرچکے ہیں۔

اب تشویش یہ ہورہی ہے کہ یہ 8 میٹر کی گزر گاہ کا  جو حصہ  میں نے  مکان میں شامل کیاآیا عند اللہ میرااس پر  مؤاخذہ تو نہیں ہوگا؟

اگریہ غلط ہواہے تو پھر اس کی تلافی کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ ایک طرف تو اس کی تعمیر پر بھاری بھرکم لاگت آئی ہے صرف یہ نہیں بلکہ میں تو یہ مکان ہبہ بھی کرچکا ہوں، براہ کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی علاقہ اور محلہ میں بند گلی کی حیثیت ایک مشترک  گھر کی ہے، یعنی جس طرح ایک گھر  میں اگر تین یا چار افراد  مشترک ہوں تو کوئی ایک فرد  دوسروں کی اجازت کے بغیر اس میں ذاتی  تصرف نہیں کرسکتااور اگر کرے گا تو بقیہ افراد  یا تو  اسے اپنے حصہ کے مطابق تصرف کرنے کا نقصان لے گا اور یااس نے (تصرف کرنے والے نے) خود  اپناتصرف ختم کرنا ہوگا، تو اسی طرح بند گلی کا بھی حکم ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کےسوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ گلی دونوں جانب کے گھروں سے باہر نکلنے کےلیے دونوں جانب کے مکینوں نے مشترکہ طور پر چھوڑی ہے اگرچہ گلی کی ایک جانب زرعی زمین ہونے کی وجہ سے گلی بند ہے، تو جس طرح دیگر شرکاء کے گھر کے سامنے کی جگہ ان کی خریدی ہوئی ہونے کے باوجود مشترکہ استعمال کی ہے، کوئی بھی وہاں سے آ جاسکتا ہے، اسی طرح گلی کے آخری حصے کی جگہ بھی گلی میں شمار ہے اس کو گلی کی حیثیت سے کھلا رکھنا چاہیے تھا، اس پر تمام اہل گلی کی اجازت کے بغیر شخصی تعمیر کا شرعاً جواز نہیں تھا اس لیے سائل کے لیے اپنے گھر اور مدرسہ کے درمیان والی  8 میٹر گزرگاہ  جو اس نے اپنے مکان میں شامل کی ہے یہ سائل کے لیے جائز نہیں تھا اگرچہ یہ گزرگاہ آگے جاکر عارضی طور پر یا مستقلاً بند ہوتی ہو، کیوں کہ یہ جگہ ایک مرتبہ گلی کی حیثیت سے مختص تھی، تو  اس میں سب گلی والوں کا حق ہوگا،اور ان کی اجازت کے بغیرسائل اس میں تصرف نہیں کرسکتا،اب  اگر تمام گلی والے مشترکہ گزرگاہ میں سے اپنا حق معاف کردیں اور تعمیر کی اجازت دے دیں تو   سائل پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا، اور اگر وہ اپنے حق کا  مطالبہ کریں تو پھر سائل پر لازم ہے کہ وہ یا تو  ان کو  ان کے حصوں کے تناسب سے قیمت ادا کر ے اور یا گزر گاہ کا مشترکہ حصہ تعمیر سے  خالی کرکے دوبارہ گزرگاہ میں شامل کردے۔

نیز یہ مکان بیٹے کو ہبہ کرنے سے بیٹا اس گزرگاہ پر تعمیر شدہ حصہ کا مالک نہیں بنا، کیوں کہ یہ حصہ سائل کی ملکیت ہی نہیں تھا، اس لیے اس میں ہبہ ہی درست نہیں ہوا، لہذا جو ذمہ داری باپ کی ہے وہی بیٹے کی بھی ذمہ داری ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"فإن أراد إحداث الظلة في سكة غير نافذة لا يعتبر فيه الضرر وعدم الضرر عندنا بل يعتبر فيه الإذن من الشركاء."

(كتاب الكراهية، باب الانتفاع بالأشياء المشتركة، (5/ 370)، ط: دار الفكر)

وفيه أيضا: 

"والحاصل أن ما كان على طريق العامة إذا لم يعرف حاله على قول محمد - رحمه الله تعالى - يجعل حديثا حتى كان للإمام رفعه وما كان في سكة غير نافذة إذا لم يعلم يجعل قديما حتى لا يكون لأحد رفعه قال شيخ الإسلام خواهر زاده وتأويل هذا في سكة غير نافذة أن تكون دار مشتركة بين قوم أو أرض مشتركة بينهم بنوا فيها مساكن وحجرات ورفعوا بينهم طريقا حتى تكون الطريق ملكا لهم."

(كتاب الكراهية، باب الانتفاع بالأشياء المشتركة، (5/ 371)، ط: دار الفكر)

وفيه أيضا:

"وفي فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - اتخذ على باب داره في سكة غير نافذة أريا يمسك دابته هناك فلكل واحد من أهل السكة أن ينقض الأري ولا يمنعه من إمساك الدواب على باب داره لأن السكة إذا كانت غير نافذة فهي كدار بين شريكين لكل واحد منهما أن يسكن في نصفها وليس له أن يحفر بئرا أو يبني فيها واتخاذ الأري من البناء وإمساك الدواب على الأبواب من السكنى وفي بلادنا كان الرسم إمساك الدواب على أبواب دورهم ولو كانت السكة نافذة فلكل واحد من أهلها إمساك الدابة على باب داره بشرط السلامة كذا في الذخيرة

(كتاب الكراهية، باب الانتفاع بالأشياء المشتركة، (5/ 371)، ط: دار الفكر)

وفيه أيضا:

"وأما إذا كان المصالح من أهل تلك السكة إن أضاف الصلح إلى جميع الظلة فالصلح يصح في حصته ويتوقف في حصة شركائه فإن أجاز شركاؤه جاز الصلح في الكل وإن لم يجيزوا صلحه ورفعوا الظلة لا شك أن الصلح يبطل في حصة شركائه حتى كان لصاحب الظلة أن يرجع على المخاصم بحصة شركائه إن كان دفع إليه جميع بدل الصلح وهل يرجع بحصته اختلف المشايخ فيه والأصح أنه لا يرجع عليه وأما إذا كان الصلح مضافا إلى نصيبه خاصة فإنه يجوز الصلح وبعد ذلك ينظر إن تبرع الشركاء بترك الظلة سلم له جميع البدل، وإن رفعوا الظلة هل يرجع صاحب الظلة على المخاصم بجميع البدل؟فالمسألة على الاختلاف وإن كان لا يعرف حال الظلة لا يجوز الصلح، وأما إذا وقع الصلح على الطرح والرفع: إن وقع الصلح على أن يأخذ المخاصم دراهم ويرفع الظلة فهو جائز على كل حال وإن وقع الصلح على أن يأخذ صاحب الظلة من المخاصم دراهم ويرفع الظلة جاز إن كانت الظلة قديمة، وكذلك إذا كانت حديثة أو لا يدري حالها، كذا في المحيط وهو الصحيح، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلح، فصل في الصلح في العقار وما يتعلق به، (4/ 258)، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں