بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھربار میں اخلاقی برائیوں کے سدباب کا طریقہ


سوال

ہمارے گھر میں آدھے لوگ نماز نہیں پڑھتے ، رات کو دیر تک جاگنے کا رواج  ہے،صبح دیر تک سوئے رہتے ہیں، اور ہر وقت موبائل میں لوڈو ، سوشل میڈیا اورٹک ٹاک کا استعمال کیا جاتا ہے، بڑوں کا ذرا احترام نہیں، بچوں کو بھی مائیں موبائل پرموٹو پتلو ( motu patlu)  کارٹون لگا کے دے دیتی ہیں، تا کہ بچے ہمیں تنگ نہ کریں، ان سب بری اخلاقی برائیوں کے حل کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

واضح رہےکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح اپنے آپ کو جہنم سے بچانےکا حکم دیا ہےاسی طرح اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم سے بچانے کا حکم دیا ہے،چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا " ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔(سورۃ التحریم،آیت:6)

لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیےحکمت وبصیرت سے کام لیتے ہوئےکوشش جاری رکھے،مذکورہ بالا خلافِ شرع امور میں سے ہر ایک سے متعلق گھر والوں کو درج ذیل اسلامی تعلیمات اوراحکامات نبویہ سے روشناس کروائے۔

نماز میں سستی کرنا:

ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ چیز کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: نماز اپنے وقت میں ادا کرنا، اور جس نے نماز چھوڑ دی تو اس کا دین ہی نہیں اور نماز دین کا ستون ہے۔

الجامع لشعب الإيمان میں ہے:

"عن عكرمة عن عمر جاء رجل فقال: يا رسول الله! أي شيء أحب عند الله ؟فقال: الصلاة لوقتها، ومن ترك الصلاة فلا دين له، والصلاة عماد الدين. قال أبو عبد الله: عكرمة لم يسمع من عمر، وأظنه أراد عن ابن عمر".

( الباب الحادي و العشرون من شعب الإيمان، و هو باب في الصلاة، رقم الحديث، 2550، ج:4، ص:300، ط:مكتبة الرشيد)

سنن الترمذی کی روایت میں ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان فرق نماز ترک کرنا ہے:

"عن أبي سفيان، عن جابر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌بين ‌الكفر ‌والإيمان ترك الصلاة»."

(باب ماجاء في ترك الصلاة، رقم الحديث،2618، ج:5 ،ص:13،ط:مكتبة مصطفي)

یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے نماز میں کوتاہی کرنے والوں کی سخت مذمت فرمائی ہے، سورہ مریم میں انبیاءِ کرام علیہم السلام کے ذکرِ خیر کے بعد فرمایا کہ ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہشِ نفس کے پیچھے ہولیے، چناں چہ وہ بہت جلد جہنم میں داخل ہوں گے۔ 

﴿ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴾ [مريم: 59]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزِ  قیامت بندے اعمال کے سلسلہ میں سب سے پہلے سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا، پس اگر نماز ٹھیک رہی تو وہ فلاح و کامیابی سے ہم کنار ہوگا، اور اگر نماز ( کا معاملہ) خراب ہوا تو  وہ خاسر و ناکام ہوگا، اور اگر اس کے  فرائض میں کوتاہی پائی جائے گی تو اللہ عز و جل کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے  نوافل ہیں،  تو اس کے ذریعہ سے اس کے فرائض کی کمی پوری کردو ، پھر بقیہ اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن الحسن، عن حريث بن قبيصة، قال: قدمت المدينة، فقلت: اللهم يسر لي جليسا صالحا، قال فجلست إلى أبي هريرة، فقلت: إني سألت الله أن يرزقني جليسا صالحا، فحدثني بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لعل الله أن ينفعني به، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته، فإن صلحت فقد أفلح وأنجح، وإن فسدت فقد خاب وخسر، فإن انتقص من فريضته شيء، قال الرب عز وجل: انظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة، ثم يكون سائر عمله على ذلك ."

(باب ماجاء ان اول مايحاسب به العبد يوم القيامة الصلاة،رقم الحديث:413، ج:2، ص:269،ط:مكتبة مصطفي)

رات دیر تک جاگنا:

احادیثِ مبارکہ میں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد  قصہ گوئی کی ممانعت اور جلدی سونے کی ترغیب وارد ہے،لہٰذا رات کو عشاء کی نماز پڑھ کر جلدی سونا مستحب ہے،تاہم عشاء کی نماز کے بعد دینی یا دنیوی ضرورت کے لیے جاگنا جائز ہے، جب کہ لا یعنی اور فضول کاموں یا گفتگو میں لگنا مکروہ ہے، نیز کسی کام میں اس طرح  لگنا جس سے فجر کی نماز قضا ہونے کا غالب گمان ہو، ناجائز ہے،نیز صبح کے اوقات میں از روئے حدیث اللہ پاک نے برکت رکھی ہے،لہذا ان دینی اور دنیاوی مفاسد کے پیش نظررات دیر تک جاگنے اور صبح دیر تک سونے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء  کی نماز مؤخر کرنے کو پسند فرماتے،اور عشاء کی نماز سے قبل سونے اور نماز پڑھ لینے کے بعد (بلاضرورت) بات چیت کو ناپسند فرماتے تھے۔

"عن أبي برزة الأسلمي، قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يستحب أن يؤخر العشاء، وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها."

(كتاب الصلاة، ابواب مواقيت الصلاة،باب النهي عن النوم قبل صلاة العشاء وعن الحديث بعدها،ج:1،ص:447،ط:دار الرسالة العالمية)

سنن ابوداؤد کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے قبل سونے سے منع فرماتےاور عشاء کے بعد بات چیت سے منع فرماتے تھے۔

"عن أبي برزة، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن النوم قبلها والحديث بعدها»."

(كتاب الادب، ‌‌باب النهي ‌عن ‌السمر بعد العشاء، ج:4، ص:263، ط:المكتبة العصرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"[تنبيه] أشرنا إلى أن علة استحباب التأخير في العشاء هي قطع السمر المنهي عنه وهو الكلام بعدها قال في البرهان: ويكره النوم قبلها والحديث بعدها لنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عنهما إلا حديثا في خير، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لا سمر بعد الصلاة» يعني العشاء الأخيرة (إلا لأحد رجلين: مصل أو مسافر) وفي رواية (أو عرس) . اهـ. وقال الطحاوي: إنما كره النوم قبلها لمن خشي عليه فوت وقتها أو فوت الجماعة فيها، وأما من وكل نفسه إلى من يوقظه فيباح له النوم. اهـ.

وقال الزيلعي: وإنما كره الحديث بعده؛ لأنه ربما يؤدي إلى اللغو أو إلى تفويت الصبح أو قيام الليل لمن له عادة به، وإذا كان لحاجة مهمة فلا بأس، وكذا قراءة القرآن والذكر وحكايات الصالحين والفقه والحديث مع الضيف. اهـ. والمعنى فيه أن يكون اختتام الصحيفة بالعبادة، كما جعل ابتداؤها بها ليمحى ما بينهما من الزلات، ولذاكره الكلام قبل صلاة الفجر، وتمامه في الإمداد. ويؤخذ من كلام الزيلعي أنه لو كان لحاجة لا يكره وإن خشي فوت الصبح؛ لأنه ليس في النوم تفريط وإنما التفريط على من أخرج الصلاة عن وقتها كما في حديث مسلم، نعم لو غلب على ظنه تفويت الصبح لا يحل؛ لأنه يكون تفريطا تأمل."

(كتاب الصلاة،ج:1، ص:363، ط:ايچ ايم سعيد)

موبائل فون کے نقصانات اور سوشل میڈیا کے استعمال کا حکم:

یہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، اس میں سامنے آنے والی سائنسی ایجادات نے جہاں حضرت انسان کو مختلف سہولیات فراہم کی ہیں،وہیں اس مشینی دور میں حضرت انسان بالخصوص ایک کلمہ گومسلمان کے لیے یہ نت  نئی ایجادات دینی و دنیاوی،فکری و نظریاتی اور معاشی و معاشرتی سطح پر سخت فتنے اور آزمائش کا باعث بنی ہوئی ہیں،اس میں سرفہرست ہمارے ربط و اتصال کا ذریعہ موبائل فون  ہے، خصوصاً اینڈرائیڈ ٹچ موبائل کے بے جا اور غلط استعمال جس کی وجہ سے آج ہر ایک مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پرسخت آزمائش میں مبتلاء ہے، موبائل فون اور سوشل میڈیا کے من جملہ نقصانات میں سے سب پہلا اور بنیادی نقصان اہل ایمان کی نوجوان نسل کا اسلامی اقدار اور پاکیزہ روایات سے دوری بڑھتی جارہی ہے،بے حیائی و عریانیت سے متاثر ہوکر نوجوان مرد و خواتین اخلاقی ودینی تباہی کا شکار ہورہے ہیں، انسان کا سرمایہ حیات وقت فضولیات و لغویات میں بے تحاشہ خرچ ہورہاہے، سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال انسان کی ذہنی ،قلبی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن رہاہے،اسی طرح خاندان اور قریبی رشتہ داروں کے درمیان دوریاں اور تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں،یہاں تک کہ اکثر لوگ سوشل میڈیا پر ڈیرے جمائے دشمنان اسلام کے نرغے میں آکر (نعوذباللہ )اپنےایمانی سرمائے سے محروم ہوجاتے ہیں،اس لیے حتی الامکان موبائل فون کا استعمال فقط ضرورت کی حدتک کیاجائے۔

نیز سوشل میڈیا کے استعمال میں ٹک ٹاک اور اس جیسی دوسری  ایپلیکیشن استعمال کرنا شرعی نقطہ نظر سے ناجائز اور اور حرام ہے، اس کے چند مفاسد درج ذیل ہیں:

1۔ اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی ہوتی ہے، جو شرعاً حرام ہے۔

2۔اس میں عورتیں بے ہودہ ویڈیو بناکر پھیلاتی ہیں۔

3۔ نامحرم کو دیکھنے کا گناہ۔

4۔ میوزک اور گانے کا عام استعمال ہے۔

5۔ مرد وزن ناچ گانے پر مشتمل ویڈیو بناتے ہیں۔

6۔ فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔

7۔ وقت کا ضیاع ہے، اور لہو لعب ہے۔

8۔ علماء اور مذہب کے مذاق اور استہزا پر مشتمل ویڈیو اس میں موجود ہیں، بلکہ ہر چیز کا مذاق اور استہزا کیا جاتا ہے۔

9۔ نوجوان بلکہ بوڑھے بھی پیسے کمانے کی لالچ میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا تک نہ کرے۔

یہ سب  شرعاً ناجائز امور ہیں، اور اس ایپ کو استعمال کرنے والا لامحالہ ان گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس سے بچنا تقریباً ناممکن ہے، لہذا ٹک ٹاک نامی ایپلی کیشن یا ان جیسی دیگر ایپلی کیشنز کا استعمال جائز نہیں ہے،اور جو لوگ اس طرح کے کی ایپلی کیشن کے  ذریعہ فحاشی و عریانیت کا سبب بن رہے ہیں ، ان کو اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے نازل کردہ عذاب کی وعید میں غور فکر کرنا چاہیے:

فرمانِ باری تعالی ہے:

"{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}ترجمہ:جو چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں ان کے لیے عذاب ہے درد ناک دنیا اور آخرت میں، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے."(سورۃ النور، آیت نمبر:19)

نیز بچوں کے لیے تیار  کیے گئے کارٹون  بھی کئی ایک پہلوؤں سے خرابی کا باعث ہیں، ان سے بچوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1- وقت کا ضیاع ہوتا ہے، حال آں کہ بچپن سے وقت کی قدر واہمیت ان کے ذہنوں میں ہونی چاہیے، ورنہ زندگی بھریہ عادت نہیں چھوٹتی۔

2- یہ کارٹون گانے باجے پر مشتمل ہوتے ہیں، جس کا سننا شرعاً ناجائز ہے.

3- ان میں موجود کردار عموماً ایسے لباس میں ہوتے ہیں جس سے لباس کی اہمیت کم ہوتی ہے اور عریانیت کو فروغ ملتا ہے.

4- کارٹون میں موجود پرتشدد مناظر سے بچوں کی طبیعت میں شدت پیدا ہوجاتی ہیں، جس کے نتائج بے شمار ناگفت بہ واقعات کی صورت میں سامنے آتے رہتے ہیں.

5- یہ کردار بچوں کے دماغوں پر چھاجاتے ہیں اورنوخیز بچے انہیں کو اپنا آئیڈیل بناکر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اس سے ان کے دل ودماغ پر برے نفسیاتی اثرات پڑتے ہیں.

6- اس راستے سے بعض غلط خیالات وعقائد بچوں کے معصوم دماغوں میں جگہ حاصل کرلیتے ہیں.

7- نازیبا حرکات بھی ہوتی ہیں، جن سے حیا کا دامن تار تار ہو جاتا ہے.

8- بچے ان کے عادی ہوجائیں تو بینائی اور صحت الگ برباد ہوتی ہے، جب کہ تعلیمی کیفیت پر بھی اثرات پڑتے ہیں.

9- ان پروگراموں میں انسان ودیگر جان داروں کی تصاویر ہوتی ہیں، جن کی تصویر سازی تو گناہ ہے ہی، ان کا دیکھنا بھی شرعاً جائز نہیں.

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بچوں کو کارٹون کا عادی بنانا کئی مفاسد کا مجموعہ اور ان کی عادات کو خراب کرنے کے مترادف ہے، عمر کے اس مرحلے میں کچے ذہن کے حامل بچے غلط عادات وخیالات میں پڑ کر زندگیاں خراب کر بیٹھتے ہیں، اس لیے شرعاً  بچوں کو کارٹون دیکھنے دکھانے پر لگانا جائز  نہیں ہے اس اجتناب کرنا چاہیے۔

باقی بطورِ مشورہ عرض ہے کہ    بہتر صورت یہ ہوگی کہ ابتدا  میں گھر والوں کو بزرگوں کی محافل میں لے جانے کا اہتمام کیا جائے، یا اگر ممکن ہو اور سہولت ہو تو اپنے ہی گھر میں دینی محافل کا اہتمام کرکے  کسی مستند عالم دین کو وعظ و بیان کے لیے مدعو کیا جائے،تاکہ دین کا ماحول میسر آنے سے گھر والوں میں  دین کی طرف رغبت پیدا ہوسکے،اور سائل  کی ذکرکردہ اختلاقی و معاشرتی برائیوں کا سدباب ہو، اور اگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی ان مفاسد کو ترک نہ کرےتو اس کا گناہ اسی کے سر پر ہوگا،سائل اس سے برئی الذمہ ہوگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں