بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر اللہ کے نام کی قسم کا حکم


سوال

 کیا اگر کسی انسان کی قسم کھائی جائے اور بعد میں توڑ دی جائے تو کیا اس انسان کو کچھ ہو جاتا ہے؟ مطلب یہ کہ کیا وہ مر جاتا ہے یا اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے جس کی قسم کھائی ہو؟ میرے نزدیک ایسا کچھ نہیں ہوتا پہلا یہ کہ غیر اللہ کی قسم کھانا گناہ ہے اور دوسرا  یہ کہ لوگوں کی من گھڑت باتیں ہیں کہ قسم توڑی تو فلاں مر جائے گا جس کی قسم کھائی ہے... میری ایک دوست ایسے مسئلے میں ہے، میری رہنمائی کردیں

جواب

بلاضرورت قسم کھانا پسندیدہ عمل نہیں ہے، اگر کوئی ضرورت یا مجبوری ہو، تو صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے نام کی ہی قسم اٹھانا جائز ہے، غیراللہ کی قسم کھانا جائز  نہیں ہے،  احادیثِ مبارکہ میں غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع کیا گیا ہے، اگر کوئی شخص غیر اللہ کی قسم اٹھا لے تو وہ قسم درست اور منعقدہی نہیں ہوتی اور  ایسی قسم توڑنے کی صورت میں کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوتا، تاہم غیر اللہ کی قسم کھانے پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔البتہ قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہے، اور اللہ کا کلام اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے؛ اس لیے \"قرآن کی قسم\" کے الفاظ سے قسم اٹھانے سے قسم ہوجاتی ہے، اور اس کے توڑنے پر کفارہ لازم ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کی دوست نے کسی انسان وغیرہ  کی قسم کھائی ہے تو یہ قسم منعقد نہیں ہوئی، اور اس کے توڑنے پر کفارہ بھی نہیں  ہے، اور نہ ہی جس کے نام سے قسم کھائی ہے توڑنے کی صورت میں اس کے مرنے والی بات کی کوئی حقیقت ہے، البتہ اس پر لازم ہے کہ  غیراللہ  کے نام کی قسم کھانے پر اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولايخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينًا. (قوله: لايقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لاينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي.... (قوله: قال الكمال إلخ) مبني على أن القرآن بمعنى كلام الله، فيكون من صفاته تعالى كما يفيده كلام الهداية حيث قال: ومن حلف بغير الله تعالى لم يكن حالفا كالنبي والكعبة، لقوله عليه الصلاة والسلام: "من كان منكم حالفًا فليحلف بالله أو ليذر"، وكذا إذا حلف بالقرآن؛ لأنه غير متعارف اهـ. فقوله: "وكذا" يفيد أنه ليس من قسم الحلف بغير الله تعالى، بل هو من قسم الصفات، و لذا علله بأنه غير متعارف، ولو كان من القسم الأول كما هو المتبادر من كلام المصنف والقدوري لكانت العلة فيه النهي المذكور أو غيره؛ لأن التعارف إنما يعتبر في الصفات المشتركة لا في غيرها. وقال في الفتح: وتعليل عدم كونه يمينًا بأنه غيره تعالى؛ لأنه مخلوق؛ لأنه حروف وغير المخلوق هو الكلام النفسي منع بأن القرآن كلام الله منزل غير مخلوق. ولايخفى أن المنزل في الحقيقة ليس إلا الحروف المنقضية المنعدمة، وما ثبت قدمه استحال عدمه، غير أنهم أوجبوا ذلك؛ لأن العوام إذا قيل لهم: إن القرآن مخلوق تعدوا إلى الكلام مطلقًا. اهـ. وقوله: ولايخفى إلخ رد للمنع.
وحاصله: أن غير المخلوق هو القرآن بمعنى كلام الله الصفة النفسية القائمة به تعالى لا بمعنى الحروف المنزلة غير أنه لايقال: القرآن مخلوق لئلايتوهم إرادة المعنى الأول. قلت: فحيث لم يجز أن يطلق عليه أنه مخلوق ينبغي أن لايجوز أن يطلق عليه أنه غيره تعالى بمعنى أنه ليس صفة له؛ لأن الصفات ليست عينًا ولا غيرًا كما قرر في محله، ولذا قالوا: من قال بخلق القرآن فهو كافر. ونقل في الهندية عن المضمرات: وقد قيل هذا في زمانهم، أما في زماننا فيمين وبه نأخذ ونأمر ونعتقد. وقال محمد بن مقاتل الرازي: إنه يمين، وبه أخذ جمهور مشايخنا اهـ فهذا مؤيد لكونه صفة تعورف الحلف بها كعزة الله وجلال".

(کتاب الأیمان،ج:3،ص:712، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں