ایک دوست زرعی دوائیوں اور بیج کا کاروبار کرتا ہے جس میں اس کا کچھ پیسہ تو لوگوں ( گاہکوں ) پر قرض ہوتا ہے کہ لوگ اس سے دوا اور بیج ادھار لے جاتے ہیں اور اس کو کچھ پیسہ کمپنیز کے پاس ایڈوانس میں جمع کروانا ہوتا ہے؛ تاکہ سیزن میں دوائیاں اور بیج اس کو مل جائیں، چنانچہ ان دنوں بھی اس کا کچھ پیسہ لوگوں کے ذمہ ادھار ہے اور کچھ کمپنی کو ایڈوانس میں دیا ہوا ہے اور باقی کا دکان میں دوائی اور بیج رکھا ہوا ہے۔
۱ - اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو پیسہ لوگوں کے ذمہ ہے ادھار کی صورت میں تو اس کی زکاۃ اس پر فوری ادا کرنا واجب ہو گی یا جب وہ پیسے مل جائیں ؟
۲ - اور جو پیسہ کمپنی کو ایڈوانس میں دے رکھا ہے مال لینے کے لیے اس پیسے کی زکاۃ کی ادائیگی کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟
1۔۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا گاہکوں کے ذمہ جو دین (قرض) ہے اس کی زکات کی ادائیگی اسی پر لازم ہے، البتہ اس کی ادائیگی فوری نہیں ہے؛ یعنی جب تک گاہکوں سے رقم وصول نہ ہو اس وقت تک اس کی زکات کی ادائیگی لازم نہیں ہے، بلکہ اس رقم کے وصول ہونے کے بعد اس کی زکات لازم ہوگی، اگر یہ رقم کئی سال بعد وصول ہو تو گزشتہ تمام سالوں کی زکات ادا کرنا لازم ہوگا، اگر پیشگی اس رقم کی زکات ادا کردے تو یہ بھی جائز ہے اور پھر قرض وصول ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکات ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔
2۔۔ جو پیسے کمپنی میں ایڈوانس کے طور پر دیے ہوئے اگر اس کا عین یا بدل واپس ملے گا (یعنی بعینہ وہی رقم واپس ملے گی یا اس کے بدلے مال ملے گا) تو اس کی زکات بھی مذکورہ شخص کے ذمہ ہی لازم ہوگی، کیوں کہ یہی اس رقم کا مالک ہے، البتہ اس (رقم کی زکات) کی ادائیگی فوری لازم نہیں ہے، بلکہ مذکورہ رقم کی وصولی کے بعد دینا لازم ہوگی، تاہم اگر زکاۃ کا سال پورا ہوجائے تو وصولی سے پہلے بھی اس کی زکات ادا کرسکتے ہیں۔
ان کے علاوہ باقی تجارتی مال جو دکان میں موجود ہے (صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں) زکات کا سال پورا ہونے پر اس کا حساب کرکے اس کی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ". (2/ 305، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ط: سعید) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201547
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن