بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاہک کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر غذائی اشیاء مہنگی فروخت کرنا


سوال

کرونا وائرس کی وباسے دو دن پہلے ہمارے ضلع ٹانک سٹی میں آٹا  40کلو 1800پرتھا، اب وہ آٹا  یکایک 2500 پرکیا۔

بڑے ٹرک بھی آرہے ہیں، اوررمضان شریف میں اشیاءِ خورد نو ش کی قمیتیں ڈبل کرتےہیں، اوریہ سمجھتے ہیں کہ گاہگ مجبور  ہے، ضرور مجھ سےسامان خریدےگا، اس ناجائز منافع خوری یا ذخیرہ اندوزی کے بارے میں اسلام کا حکم بیان کریں۔

جواب

عمومی اشیاء اور عمومی حالات میں کسی چیز  کو  خریدنے کے بعد آگے فروخت پر نفع کی کوئی مقدار شرعاً متعین نہیں ہے، البتہ خوراک اور غذائی اجناس  کی اگر قلت ہو تو بحرانی حالت میں  اس قدر نفع نہ رکھا جائے جس سے عام صارف پر ناقابلِ برداشت بوجھ  پڑے، بلکہ اس حالت میں مارکیٹ ریٹ یا ہوسکے تو اس سے بھی کم نفع پر فروخت کرنے کو شریعت نے پسند کیاہے۔

حدیثِ مبارک کا مفہوم ہے: بدترین بندہ ہے ذخیرہ اندوز، اگر اللہ تعالیٰ نرخ ارزاں کردے تو غمگین ہوتا ہے، اور اگر نرخ گراں کردے تو خوش ہوجاتاہے۔ شدید غذائی بحران کی حالت میں حاکمِ وقت کو انصاف مدِّ نظر رکھتے ہوئے نرخ متعین کرنے کا بھی حق ہے۔

بہرحال  اگر غذا کا بحران نہ ہو یا ایسی اشیاء جن پر زندگی کا گزران اور مدار نہ ہو، ان کی فروخت میں نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، تاہم حرص وہوس شریعت میں ایک ناپسندیدہ خلق (وصف) ہے، دنیا کی محبت اور لالچ  دل کے گناہ ہیں، اس لیے عمومی احوال میں بھی مارکیٹ ریٹ یا اس سے کسی قدر  کمی بیشی کے ساتھ اشیاء فروخت کرنی چاہییں، نیز لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اشیاء مہنگی فروخت کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

المعجم الكبير للطبراني (20/ 95):
"عن معاذ بن جبل قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن الاحتكار ما هو؟ قال: «إذا سمع برخص ساءه، وإذا سمع بغلاء فرح به، بئس العبد المحتكر، إن أرخص الله الأسعار حزن، وإن أغلاها الله فرح»". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں