بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

گاہک کے مطالبے پر وعدہ بیع کر کے کوئی چیز دوسرے دکان دار سے منگوانے کے بعد اپنا منافع رکھ کر گاہک کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

میری موٹر سائیکل کی دکان ہے، میرے پاس گاہک آکر کہتے ہیں کہ فلاں چیز چاہیے، تو میں وہ چیز دے دیتا ہوں، لیکن بعض اوقات وہ چیز میرے پاس موجود نہیں ہوتی تو میں گاہک سے کہتا ہوں کہ میں یہ چیز آپ کے لیے منگوالیتا ہوں یا گاہک کہتا ہے کہ آپ میرے لیے یہ چیز منگوادیں، گاہک پوچھتا ہے کہ وہ چیز کتنے میں ملے گی؟ تو میں کہتا ہوں کہ تقریباً دو ہزار یا بائیس سو میں ملے گی تو گاہک مجھے پوری رقم یا کچھ رقم دے کر کہتا ہے کہ میرے لیے یہ چیز منگوادیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاہک مجھے پیسے دیے بغیر کہتا ہے کہ میرے لیے یہ چیز منگوا دیں اور پیسے چیز منگوانے کے بعد دے دیتا ہے، بہرحال میں خود جاکر یا فون کر کے دوسرے دکان دار سے وہ چیز منگوالیتا ہوں، مارکیٹ میں دکان ہونے کی وجہ سے دوسرا دکان دار مجھے وہ چیز اٹھارہ سو میں دے دیتا ہے اور میں دو ہزار یا بائیس سو میں گاہک پر بیچ دیتا ہوں، پوچھنا یہ ہے کہ جو چیز میں نے اٹھارہ سو میں خریدی تو کیا وہ چیز میں گاہک پر دو ہزار یا بائیس سو روپے کے عوض بیچ کر منافع کماسکتا ہوں؟

جواب

اگر آپ گاہک کے مطالبے پر اس سے وعدہ بیع (یعنی دو ہزار یا بائیس سو میں مطلوبہ چیز منگواکر دینے کا وعدہ) کر کے دوسرے دکان دار سے کوئی چیزنقد یا ادھار پر اٹھارہ سو میں خرید کر اپنے قبضے میں لینے کے بعد گاہک کو اصل قیمت بتائے بغیر اپنا نفع رکھ کر حتمی قیمتِ فروخت (دو ہزار یا بائیس سو) طے کر کے اسے فروخت کرتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے اور منافع رکھنا بھی آپ کے لیے جائز ہے، خواہ آپ گاہک سے مکمل یا جزوی قیمت پہلے سے لے لیں یا چیز منگواکر دینے کے بعد لیں۔

اصولی بات یہ ہے کہ اگر گاہک آپ سے کوئی ایسی چیز مانگے جو اس وقت آپ کے پاس نہیں ہے تو آپ منگوانے کی نیت سے اس سے سودا (بیع) نہیں کرسکتے ہیں، البتہ آپ اس سے وعدہ بیع کرسکتے ہیں، یعنی اس کے مطالبے پر اس سے یہ وعدہ کرسکتے ہیں کہ میں یہ چیز منگواکر آپ کو اتنی قیمت پر فروخت کرسکتا ہوں۔

حدیث میں ہے :

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك."

(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،5/ 362، ط:دارالرسالة العالمیة)

مرقاة المفاتیح میں ہے :

"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."

(باب المنهی عنها من البیوع،5 /1937، ط:دارالفکر)

الجوہرة النیرة میں ہے :

"وأما نهيه عن بيع ما لم يقبض يعني في المنقولات، وأما نهيه عن بيع ما ليس عنده فهو أن يبيع ما ليس في ملكه، ثم ملكه بوجه من الوجوه فإنه لا يجوز إلا في السلم فإنه رخص فيه."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد،1/ 203، ط:المطبعة الخیریة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌ والفرق بين الثمن والقيمة أن ‌الثمن ‌ما ‌تراضى ‌عليه المتعاقدان سواء زاد على القيمة أو نقص، والقيمة ما قوم به الشيء بمنزلة المعيار من غير زيادة ولا نقصان."

(كتاب البيوع، ‌‌باب خيار الشرط، مطلب في الفرق بين القيمة والثمن، 4/ 575، ط: سعید)

فتح القدیر لابن الہمام میں ہے:

" والحد المَذكور: أعني مبادلة المال بالمال علي وجه التّراضي بطريق الاكتساب إنما هو حد البيع الّذي هو عقد شرعي وهو المجموع المركب من الإِيجاب والقبول مع الارتباط الشرعي الحاصل بينهما."

(كتاب الوكالة، باب الوكالة في البيع و الشراء، فصل في البيع،8/ 80، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول والثاني التعاطي وهو الأخذ والإعطاء كذا في محيط السرخسي."

(کتاب البیوع، الباب الاول، ج:3، ص:2، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهما عبارة عن كل لفظين ينبئان عن معنى التملك والتمليك ماضيين) كبعت واشتريت أو حالين) كمضارعين لم يقرنا بسوف والسين كأبيعك فيقول أشتريه أو أحدهما ماض والآخر حال.

(و) لكن (لا يحتاج الأول إلى نية بخلاف الثاني) فإن نوى به الإيجاب للحال صح على الأصح وإلا لا إذا استعملوه للحال كأهل خوارزم فكالماضي وكأبيعك الآن لتمحضه للحال، وأما المتمحض للاستقبال فكالأمر لا يصح أصلا إلا الأمر إذا دل على الحال كخذه بكذا فقال أخذت أو رضيت صح بطريق الاقتضاء فليحفظ.

(قوله: كالأمر) بأن قال: المشتري: بعني هذا الثوب بكذا فيقول: بعت أو يقول: البائع: اشتره مني بكذا فيقول: اشتريته. (قوله: لا يصح أصلا) أي سواء نوى بذلك الحال أو لا لكون الأمر متمحضا للاستقبال وكذا المضارع المقرون بالسين أو سوف. (قوله: كخذه بكذا إلخ) قال: في الفتح فإنه وإن كان مستقبلا لكن خصوص مادته أعني الأمر بالأخذ يستدعي سابقة البيع، فكان كالماضي إلا أن استدعاء الماضي سبق البيع بحسب الوضع واستدعاء خذ سبقه بطريق الاقتضاء فهو كما إذا قال: بعتك عبدي هذا بألف فقال: فهو حر عتق، ويثبت باشتريت اقتضاء بخلاف ما لو قال: هو حر بلا فاء لا يعتق."

(کتاب البیوع، ج:4، ص:510، 511، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعا بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى."

(کتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطی، 4/ 516، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں