بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر آباد زمین کے بقدرِ نصاب ہونے پر مانع زکوۃ کے بارے میں ایک شبہ کا ازالہ


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں ،کہ "احسن الفتاوی"اور دوسرے عربی اردو فتاوی کے درمیان ایک مسئلہ میں کچھ تضاد واقع ہو رہا ہے ،اس میں راجح اور مفتی بہ قول کے بارے میں رہنمائی کریں،مسئلہ درج ذیل ہے :

مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی کے پاس اموالِ زکوۃ(سونا ،چاندی،نقد،اور مالِ تجارت )میں سے کوئی ایک بھی اتنی مقدار میں موجود نہیں،کہ جو نصاب کو پہنچے ،(علیحدہ طور پر یا مشترک )البتہ اس کی ملکیت میں اتنی زمینیں (آباد وغیر آباد)اتنی مقدار میں موجود ہیں کہ ان کی قیمت نصاب کو پہنچ رہی ہے ،تو کیا اب ان غیر آباد زمینوں کو حوائج اصلیہ میں سے شمار کر کے مالک کو مستحقِ زکوۃ سمجھا جائے گا ،یا اس زمین کی قیمت کا اعتبار کر کے مالک زمین کو غنی تصور کیا جائے گا؟

اب  یہاں احسن الفتاوی والے اس  طرح کے ایک سوال کے جواب میں یوں فرماتے ہیں کہ :"اگر غیر آباد زمین آباد ہونے کے بعد صرف بقدرِ  کفایت ہی رہے گی،تو زکوۃ لے سکتے ہیں ،اور اگر قدرِ کفایت سے زیادہ ہو گی اور زائد حصہ کی قیمت بقدرِ نصاب ہو ،تو یہ مانع اخذِزکوۃ ہو گی ۔فقط واللہ اعلم"(احسن الفتاوی ،4/306)۔

اب یہاں پر احسن الفتاوی والوں نے غیر مزروعہ کو بھی مزروعہ فرض کر کے حکم لگایا ہے ،اسی طرح مذکورہ عبارت  سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ "اگر کفایت کررہی ہو " تب تو بدستور فقیر رہے گا جب تک زائد از کفایت کی قیمت نصاب کو نہ پہنچے ۔

جب کہ اسی مسئلہ میں ہندیہ ،ردالمحتار،بدائع الصنائع ،فتح القدیر ،البحر الرائق ،اور اسی طرح فتاوی دار العلوم،فتاوی محمودیہ،فتاوی فریدیہ ،وغیرہ  تمام کتب کا مشترکہ مؤقف یہ ہے :۔بدائع ميں هے :

"وذكر في الفتاوى فيمن له ‌حوانيت ودور الغلة لكن غلتها لا تكفيه ولعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد وزفر، وعند أبي يوسف لا يحل وعلى هذا إذا كان له أرض وكرم لكن غلته لا تكفيه ولعياله، ولو كان عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم فإن كان كفاية شهر تحل له الصدقة وإن كان كفاية سنة، قال بعضهم: لا تحل، وقال بعضهم: تحل؛ لأن ذلك مستحق الصرف إلى الكفاية والمستحق ملحق بالعدم۔"(2/48)

ردالمحتار میں ہے :وفيها ‌سئل ‌محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لا يحل اهـ ملخصا(348/2)۔

اب  ان مذکورہ فتاوی کی عبارت سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ :کہ اگر زمین کفایت نہ کر رہی ہو تو تب تو زکوۃ لے سکتا ہے ،لیکن اگر کفایت کر رہی ہو ،تو پھر زکوۃ نہیں لے سکتا،(مازاد عن الکفایہ )کی قید کے بغیر۔

اب  مذکورہ تفصیل کے بعد چند امور کی وضاحت مطلوب ہے :

1۔احسن الفتاوی اور دیگر فتاوی کے درمیان واقع تضاد کو رفع کر کےمفتی بہ قول کی نشاند ہی کریں؟

2۔احسن الفتاوی والوں نے غیر آباد زمین کو آباد فرض کر ے کے حکم لگایا ہے ،جب کہ بقیہ فتاوی والوں نے غیر آباد زمین کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے ۔

3۔احسن الفتاوی والوں نے معیار مانعیت ِ زکوۃ کا یہ بنایا ہے کہ ،زمین کی پیداوار سال بھر کفایت کرے ،اب زائد از کفایت نصاب تک پہنچے ،تب آدمی زکوۃ نہیں لے سکتا ،جب کہ باقی فتاوی والوں نے نفسِ کفایت ہی کو معیار قرار دیا۔

4۔کیا غیر آباد زمین حوائجِ اصلیہ میں داخل ہے ؟

5۔اگر کسی کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا ہے ،جس کی قیمت نصاب کو پہنچ رہی ہو ،لیکن مالک کا گزارہ اس زمین کے علاوہ دوسرے ذرائع آمدن سے ہو رہا ہے ،تو کیا یہ زمین حوائجِ اصلیہ سے نکل جائے گی؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ایسا شخص جس کے پاس اموالِ زکوۃ (سونا،چاندی ،نقدی ،مالِ تجارت)نہ ہو ،لیکن اس شخص کے پاس آباد وغیر آباد زمینیں اتنی مقدار میں موجود ہوں، کہ  جن کی قیمت بقدرِ نصاب ہو،تو کیا اب ان غیر آباد زمینوں کو   بھی   حوائجِ اصلیہ میں شمار کر کے مالکِ اراضی کو  مستحقِ زکوۃ سمجھا جائے گا  جب کہ ان زمینوں کی پیداوار  بقدرِ کفایت نہ ہو یاان زمینوں کی قیمت   نصاب تك پہنچتی هو ، اس كا اعتبار کر کے   مالک کو غنی تصور  کیا جائے  گا ؟

تو اس بارے میں فقہاء احناف کے ہاں دو قول موجود ہیں ،ایک   قول امام محمدؒ کا  ہے اور دوسرا قول امام ابو یوسف ؒ کا ہے ،امام محمد کے نزدیک یہ شخص مذکورہ نصاب  کی وجہ سے (یعنی زمین کی قیمت کی وجہ سے) غنی شمار نہیں ہو گا ،لہذا یہ نصاب اس کے لیے اخذِ زکوۃ سے مانع نہیں ہو گا ،اور موجب فطر واضحیہ بھی نہیں ہو گا،جب کہ امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ    مذکورہ زمین کی قیمت بقدرِ نصاب ہو نے کی وجہ سے یہ شخص غنی شمار ہو گا ،اور مذکورہ نصاب اس کے لیے مانع اخذِزکوۃ،اور موجب فطر واضحیہ  ہو گا ۔

فقہاء کرام نے امام ابویوسف ؒکے قول کو بناء   براحوط ہونے کہ  عمل  کرنے کے لیے پسند فرمایا ہے ،لیکن بناء بر توسع علی الناس فتوی  امام محمد کے قول پر دیا ہے ،جیسا کہ  فتاوی شامی میں تاتار خانیہ  سے نقل کیا ہے،اور اسی طرح امدادالفتاوی  میں حضرت تھانوی ؒ نے اس کی صراحت فرمائی ،اور فتاوی دارالعلوم دیو بند میں بھی اسی طرح مذکور ہے ۔

دفع  توہم ِتعارض   :

 صورتِ مسئولہ میں  سائل کو   مذکورہ احسن الفتاوی کی عبارت   کا دوسری کتب فتاوی کی عبارت سے  بظاہر جو تعارض معلوم ہوا ،وہ اس وجہ سے   کہ سائل  نے باقی فتاوی  کی عبارات سے یہ سمجھا کہ انہوں نے اخذِ زکوۃ کے لیے  صرف عدمِ کفایت  کو معیار بنایا  حالاں  کہ اس بارے میں فقہاء کرام  نے اردو ،عربی فتاوی  میں چار صورتیں  ذکر فرمائیں ہیں :

1۔ آباد وغير آباد زمين   بقدرِ کفایت نہ ہو ۔کما فی الشامی وغیرہ ۔(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکوۃوالعشر ج,ج :3،ص :296،ط:سعید)

2۔بقدر کفایت تو ہو لیکن قدرِ  کفایت سے زائد  نہ ہو ۔امدادالفتاوی(کتاب الزکوۃ والصدقۃ ،:ج :2،ص :63/  64،ط :دارالعلوم کراچی )

3۔قدرِ کفایت سے زائد بھی ہو ،  لیکن زائد مقدار  نصاب تک نہ پہنچے ۔امدادالفتاوی(کتاب الزکوۃ والصدقۃ ،:ج :2،ص :60،ط :دارالعلوم کراچی )

4۔بقدرِ کفایت بھی ہو ،اور زئد از کفایت بھی ہو ،اور   بقدر نصاب بھی ہو ۔کما فی التتار خانیہ(کتاب الزکاۃ،ج:3،ص:215،ط:رشیدیة)

لہذا پہلی تین صورتیں  مالک اراضی کے لیے اخذِ زکوۃ سے مانع نہیں ،جب کہ  چوتھی  صورت اخذ، زکوۃ سے مانع ہے ۔کما فی التتار خانیہ(کتاب الزکاۃ،ج:3،ص:215،ط:رشیدیة)

اب آئیے سائل کے سوال  کے جواب کی طرف  :

3۔2۔1۔  لہذاصورتِ مسئولہ میں احسن الفتاوی  کی عبارت اور باقی عربی اردو فتاوی کی عبارات کے اندر  باہم کو  تضاد نہیں ؛کیوں کہ   احسن الفتاوی میں مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے دو صورتوں ( صور اربع مذکورہ بالا میں سےدوسری  صو رت  ،صرف بقدرِ نصاب والی اور چوتھی صورت   زائد از کفایت، بقدرِ نصاب )کو  سوال کی مناسبت سے صراحۃ ً ذکر فرمایا جس سے ضمناً   پہلی صورت (بقدرِ کفایت  بھی نہ ہو ) اور تیسری صورت (زائد از  کفایت   بنصاب نمی رسد)کا حکم بطریقِ اولی معلوم ہو گیا،اور باقی فقہاء کرام(  جن  کی کتابوں کا حوالہ سائل نے دیا)نے  صرف  پہلی صور ت کے ذکر پر اکتفاء فرمایا باقی تینوں صورتوں سے کوئی تعرض نہیں کیا،جس سے یہ حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے مانعیتِ اخذِ زکوۃ    کا معیار  نفسِ کفایت کو ہی بنایا ہے ،کیوں کہ حضرت  تھانوی ؒ  نے  امداد الفتاوی میں ایک سوال (کہ بقدرِ کفایت مانع اخذِ زکوۃ ہے یا نہیں )کے جواب میں صراحت کی ہے ،کہ  جائیداد کی پیداوار  جس کے لیے   سال بھر کے خرچہ   کے لیے کافی ہو ، اس کے لیے بھی زکوۃ لینا جائز ہے ،(کتاب الزکوۃ والصدقۃ ،:ج :2،ص :63/  64،ط :دارالعلوم کراچی )۔

اور زائد از کفایت بقدِ نصاب والی بات  فتاوی تاتار خانیہ میں ان الفاظ میں  مذکور ہے " عن محمد ؒإذا كان لرجل  دار تساوي عشرة آلاف درهم لجودة موضعه وقربه من السوق وليس  فيها فضل عن سكناها ما يساوي مائتي درهم قال: تحل له  الزكاة ،وإنما لا تحل له الزكاة  إذا كان في مسكنه فضل عن سكناه ما يساوي ماتئي درهم ."(کتاب الزکاۃ،ج:3،ص:215،ط:رشیدیہ)

اور احسن الفتاوی کی مذکورہ عبارت میں  بھی یہی کچھ مذکور ہے،لہذا دونوں قسم کی عبارتوں میں کوئی تضاد واقع نہیں ہوا ،بلکہ صرف تعبیر کا فرق ہے،کسی نے صورتِ مسئولہ کو دیکھتے ہوئے ا  یک تعبیر اختیار فرمائی ،اور کسی نے عام مسئلہ بیان  فرمانے کے لیے دوسری تعبیر اختیار فرمائی ،مقصود دونوں کا ایک ہی ہے ،کیوں  عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں :لأن ‌عدم ‌الذكر ليس ذكرا للعدم."(شرح بلوغ المرام ،کتاب الزکاۃ،باب متی یبدأ نصاب الغنم ،ج :2،ص:105،ط:بیروت )

4۔اگر  غیر آبادزمین کو رہائش کے لیے گھر بنانے کی نیت سے غیر آباد چھوڑا ہوا ہے تو پھر تو یہ حاجتِ اصلیہ میں شمار ہو گی ،بصورتِ ديگر اگر اپنی کوتاہی سے غیر آباد چھوڑی ہوئي ہے،  اور  وه قیمتی زمين ہے (بالکل ہی بنجر نہ ہو )،توپھر ایسی غیر آباد زمین حاجتِ اصلیہ میں شمار نہیں ہو گی،بلکہ اگر اسکی قیمت بقدرِنصاب کو پہنچے گی تو یہ مالک کے لیے اخذِ زکوۃ سے مانع ہو گی،جیسا کہ فتاوی تتار خانیہ میں امام محمد ؒ  نے صراحت فرمائی ،اور انہیں کی اتباع میں حضرتِ تھانوی ؒ نے امدادالفتاوی میں اس کو اختیار کیا ہے (جیسا کہ حوالہ  ذیل میں یہ بات آئے گی)۔

5۔اگر  مذکورہ زمین كا ٹكڑه  اس کے استعمال میں نہیں ہے ،اور اس زمین کے ٹکڑہ کے غلہ یا کرائے سے اس کی گھر کی ضروریات پوری نہیں ہو رهي ہیں ،بلکہ کسی دوسرےذرائع  واسباب سے اس کا گزر بسرہو رہا ہے تو پھر یہ زمین حاجتِ اصلیہ میں  شمار نہیں ہو  گي ،اگر اس کی قیمت بقدرِ نصاب ہو تو یہ  قطعہ اراضي  مانع اخذِ زکوةہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"سئل محمد عمن له ارض یزرعھا او حانوت یستغلھا او دار غلتھا ثلاث آلاف ولا تکفي لنفقته ونفقة عیاله سنة؟یحل له اخذ الزکاۃ وان کانت قیمتھا تبلغ الوفا وعلیه الفتوی."

(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکوۃ و العشر، ج :3،ص :296،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

ولو کان لہ ضیعة تساوی ثلاثة آلاف،ولا تخرج ما یکفي له ولعیاله اختلفوا فیه قال محمد بن مقاتل یجوز له اخذ الزکاۃ."

(کتاب الزکاۃ ، باب المصارف ،ج :1 ،ص :189،ط :دارالفكر)

 وفيه وايضاّ:

وکذا لو کان له حوانیت او دار غلة تساوی آلاف درھم وغلتھا لا تکفي لقوته وقوت عیاله یجوز صرف الزکاۃ الیه فی قول محمد ؒ ."

(کتاب الزکاۃ ،باب مصارف الزکاۃ،ج:1،ص :189،ط:دارالفکر)

 وفيه وايضاّ:

"ولو كان له دار فيها بستان، وهو يساوي مائتي درهم قالوا: إن لم يكن في البستان ما فيه مرافق الدار من المطبخ والمغتسل وغيره لا يجوز صرف الزكاة إليه، وهو بمنزلة من له متاع وجواهر."

البحر الرائق میں ہے :

"ویحل لمن له دور وحوانیت تساوی نصابا،وھو محتاج لغلتھا لنفقتة ونفقة عیاله علی خلاف فیه ولمن عندہ طعام سنة تساوی نصابا لعیاله علی ما ھو الظاھر."

(کتاب الزکاۃ،ج:2 ، ص:263، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

" منھا - أي: من المصارف - الفقیر، وھو من له أدنی شییٴ وھو ما دون النصاب أو قدر نصاب غیر نام وھو مستغرق فی الحاجة فلا یخرجه عن الفقر ملک نصب کثیرة غیر نامیة إذا کانت مستغرقة بالحاجة کذا في فتح القدیر."

  ( کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف،ج ،1،ص:189، ط: دارالفكر )

 فتاوی شامی میں ہے :

"الاَ صل ان ماعد الحجرین والسوائم اِنما یزکی بنیة التجارۃ:قوله ما عدا الحجرين) هذا علم بالغلبة على الذهب والفضة ط وقوله: والسوائم بالنصب عطفا على الحجرين وما عدا ما ذكر كالجواهر والعقارات والمواشي العلوفة والعبيد والثياب والأمتعة ونحو ذلك من العروض."

(کتاب الزکاۃ ،ج :2 ،ص :273 ،ط : سعید )

 وفيه وایضاً :

وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه."

( كتاب الأضحية ،ج :6،ص : 312،ط :سعيد)

 وفيه وايضاّ :

"قوله: وفارغ عن حاجته الأصلية) أشار إلى أنه معطوف على قوله عن دين (قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة، كما أن الماء المستحق بصرفه إلى العطش كان كالمعدوم وجاز عنده التيمم."

(كتاب  الزكاة ،ج :2،ص :262،ط:سعيد)

فتاوی تاتار خانیہ میں :

"ولو کان له ضیعه تساوی ثلاثة آلاف،ولا تخرج ما یکفي له ولعیاله اختلفوا فیه قال محمد بن مقاتل یجوز له اخذ الزکاۃ.....وقيل علي قول محمد ؒإذا كانت غلة الضيعة لا تكفيه  لتقصيره في العمل ،فهو غني."

 وفيه وایضاً:

"والحاصل أن ما يكون  مشغولا بحاجته الحالية نحو الخادم ،والمسكن ،وثيابه  التي يلبسها في الحال ،لا يعتبر في تحريم الصدقة بالإجماع،وما يكون فاضلا عن حاجته الحاليةيعتبر في تحريم الصدقة."

(كتاب الزكاة ،الفصل الثامن من توضع فيه الزكاة،ج:3،ص:217،ط :رشيدية)

امداد الفتاوی میں ہے :

"سوال :جس شخص کے پاس زمین جس کی قیمت دو سو درہم سے بھی زیادہ ہے ،مگر اس میں جو زراعت پیدا ہوتی ہے وہ سال بھر کی خوراک کو پورے طور پر کافی نہیں ہوتی ،یا کافی ہے مگر فاضل نہیں ایسے شخص پر قربانی و صدقۃ فطر واجب ہے یا نہیں ؟فقط"

الجواب :امام محمدؒ کے نزدیک یہ شخص غنی نہیں ہے،اور اسی پر فتوی ہے ۔کذا فی رد المختار ج 2 ص 104 عن التتار خانیۃ اس لیے اس پر فطر وقربانی واجب نہیں ۔"  

اسی طرح حضرتِ تھانوی دوسری جگہ لکھتے ہیں :

سوال :کسی آدمی کے پاس  دو سو تین سو روپے کی جائیداد ہے ،اس کی پیداوار سے دو تین ماہ کا گزران کر سکتا ہے ،اور باقی ماہ مشقت مزدوری سے اپنی اوقات  بسر کرتا ہے،سوائے اس ،کے دوسرا اور کوئی طریقہ نہیں ،آیا اس پر صدقۃ الفطر ہے یا نہیں ؟اور اگر  اس پر واجب نہ ہو تو جس کی   جائیداد اتنی ہے ، کہ   اس کی پیداوار سے پورے سال کی معاش ہو سکتی ہے ، لیکن اس میں سے کچھ بچتا نہیں ،اس پر بھی واجب نہ ہونا چاہیے؟کیوں کہان کے لیے یہ زمین اور جائیداد حوائجِ  ضروریہ  میں  سے ہے ،حالاں کہ اکثر علماء  ان کے لیے صدقۃ الفطر واجب فرماتے ہیں ،اور حوائجِ اصلیہ میں کون کون سی چیز ہے ؟

الجواب :"وفی رد المختار :ذكر في الفتاوى فيمن له ‌حوانيت ودور الغلة لكن غلتها لا تكفيه ولعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد وزفر، وعند أبي يوسف لا يحل وعلى هذا إذا كان له أرض وكرم لكن غلته لا تكفيه ولعياله، ولو كان عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم فإن كان كفاية شهر تحل له الصدقة وإن كان كفاية سنة، قال بعضهم: لا تحل، وقال بعضهم: تحل؛ لأن ذلك مستحق الصرف إلى الكفاية والمستحق ملحق بالعدم......وفيها ‌سئل ‌محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لا يحل ۔"ج ،2 ص: 103 /104."

اس سے معلوم ہوا کہ  جس شخص کے  ،ایک سال کے خرچے کے لیے جائیداد  کی آمدن کافی نہ ہو  ،اس کے لیے حلِ زکوۃ میں اختلاف ہے ،امام محمد ؒ کے قول پر  جواز کافتوی ہے ،پس حلِ زکوۃ دلیل ہے اس کے فقیر ہونے کی،اس لیے اس پر صدقۃ الفطر واجب نہیں،اور جس کے لیے سال بھر کے خرچ کو کافی ہو جاوے ،اس میں جزئیہ نہیں دیکھا ،لیکن قوتِ دلیل سے اس کا حکم بھی مثلِ مذکور معلوم ہوتا ہے،وهو قوله لإنه مستحق الصرف."

(کتاب الزکوۃ والصدقۃ ،:ج :2،ص :63/  64،ط :دارالعلوم کراچی )

اور امداد الفتاوی میں  تیسری جگہ اس طرح لکھا ہوا ہے :

سوال: وجوب فطر واضحیہ  وحرمتِ اخذ، زکوۃ وغیرہ و صدقات کے لیے عقار کی غناء کس طرح پر ہے ؟بہت جزئیات دیکھے مگر تسکین نہ ........اس مسئلہ میں منقح حکم فرمایا جاوے۔

الجواب :روایات مذکورہ تو زیادہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ،لیکن استاذی علیہ الرحمہ  امام  کومحمد ؒکے قول پر  فتوی دیتے ہوئے دیکھا،اور خود احقر کا عمل بھی اسی پر ہے ،مگر اس مین قدرے تفصیل ہے :وہ یہ کہ اگر اس عقار سے یہ شخص استغلال نہیں کرتا تب تو خود اس کی قیمت کا اعتبا ر  ہے ،پس اگر  وہ فاضل از حاجتِ اصلیہ قیمت  بقدرِ نصاب ہے تو مانع اخذِ زکوۃ وموجبِ فطر واضحیہ ہے،اور اگر  اس سے استغلال کرتا ہے تو اس کے غلہ کا اعتبار ہے، اگر  اس کا غلہ  سال بھر کے خرچ سے بمقداِر نصاب نہیں بچتا تو مانع اخذِ زکوۃ وموجبِ فطر واضحیہ نہیں ،اور امام صاحب کے قول کا  تقدم علی الاطلاق  نہیں .کما فصل فی رسم المفتی ۔"

(کتاب الزکوۃ والصدقۃ ،:ج :2،ص :60،ط :دارالعلوم کراچی )

فتاوی دارالعلوم دیو بند میں ہے :

سوال :شخصی قدرِ اراضی کہ قیمتش از زائد ِ نصاب اضحیہ وصدق فطر باشد لیکن پیداوار ے سالانہ بنصاب نمی رسد ،دریں صورت کدام جہت معتبرو معتمد است ،جہت ِقیمت یا پیدار؟

(جواب ) در ایں صورت اختلاف است ما بین امام ابو یوسف ؒ وامام محمد ؒ امام محمد ی فرمایند کہ ایں چنیں نصاب مذکر مانع از اخذِ زکوۃ نیست ،وصد قۃ الفطر  بروواجب نیست ،وامام  ابو یوسفؒ :نصاب مذکورہ را مانع از اخذِ  زکوۃ می فرمایند وصدقہ فطر واضحیہ بروواجب می گویند واساتذہ کرام قول امام ابو یوسف ؒ احوط دانستہ بروعمل پسند فرمودہ اند وقول امام محمد ؒ اوسع است وفقہاء فتوی براں دادہ اندلقوله وفيها ‌سئل ‌محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لا يحل."

(کتاب الزکاۃ، ج: 6 ،ص :61 ،ط :دارالاشاعت)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144409100436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں