بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاہک کو کھلے پیسوں کے بدلے ٹافی وغیرہ پکڑا دینا


سوال

آج کل بعض دکاندار کو گاہک جب پیسے دیتے ہیں تو دکاندار اس کو کھلے پیسے کے بدلے ٹافیاں وغیرہ دیتے ہیں کبھی گاہک راضی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

عموما اس طرح کے جبری معاملات بڑے سپر اسٹورزاور گراں فروش دکانوں  پر پیش آتے ہیں جہاں مہنگی اشیاء پر قیمت طے کرتے وقت(ٹیکس سے بچنے کے لیے یا خریدار کو ذہنی طور پر اس چیز کی طرف مائل کرنے کےلیے)چند اکائیاں چھوڑدی جاتی ہیں،پھر جب خریدار وہ چیز خریدتا ہے اور اس کی معمولی رقم(ایک،دویا پانچ روپے)قابل واپسی ہوتی ہو تو وہ دکاندار  اس معمولی رقم کے عوض کوئی ٹافی وغیرہ گاہک کو دے دیتے ہیں،اور گاہک بھی معمولی رقم ہونے کی وجہ سے دکاندار سے الجھنے نے کے بجائے اس كي عوض  میں   ٹافی وغیرہ  لے لیتا ہے،اس طرح اس ٹافی کا منافع بھی دکاندار کے حصہ میں آتا ہے،یہ ایک جبری معاملہ ہے،لہذا یہ روش درست نہیں ہے،باقی شرعی اعتبار سے  گاہک کا حق ہے وہ اپنی رقم واپس لےیا اس کے عوض ٹافی وغیرہ لے،اگر گاہک ٹافی لینے پر راضی نہیں تو دکاندار کو اس کی بقیہ رقم ادا کرنا ضروری ہوگا۔

الدر المختاروحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(فالإيجاب) هو: (ما يذكر أولا من كلام) أحد (المتعاقدين) والقبول ما يذكر ثانيا من الآخر سواء كإن بعت أو اشتريت الدال على التراضي) قيد به اقتداء بالآية وبيانا للبيع الشرعي....

(قوله: الدال على التراضي) الأولى أن يقول الرضا كما عبر به في الفتح والبحر؛ لأن التراضي من الجانبين لا يدل عليه الإيجاب وحده بل هو مع القبول أفاده ح. (قوله: قيد به اقتداء بالآية) وهي قوله تعالى -{إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم}[النساء: 29]-. (قوله: وبيانا للبيع الشرعي) استظهر في الفتح أن التراضي لا بد منه في البيع اللغوي أيضا، فإنه لا يفهم من باع زيد عبده لغة إلا أنه استبدله بالتراضي. اهـ. ونقل مثله القهستاني عن الكفاية والكرماني وقال: وعليه يدل كلام الراغب خلافا لشيخ الإسلام."

(کتاب البیوع،ج4،ص507،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں