بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاہک کی بقیہ رقم جو دوکاندار کے کے پاس بچ جائے اس کا حکم


سوال

گاہک سے رقم وصول کرنے کے بعد بعض اوقات ایک روپیہ پانچ روپیہ بچ جاتا ہے جس کو گاہگ خود چھوڑ کر بھی چلا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس ایک روپے اور پانچ روپے کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں گاہک کی جو رقم بچے وہ اسے واپس کرنا ضروری ہے،  بقیہ رقم  گاہک سے پوچھے بغیر اپنے پاس رکھ لینا دوکاندار  کے لیے جائز نہیں، پس جس گاہک کی جتنی رقم دوکاندار کے پاس موجود ہو،  وہ اسے لوٹانا ضروری ہوگا، البتہ جو زائد  رقم گاہک برضا و خوشی   دوکاندار کے پاس چھوڑ دے وہ لینا  جائز ہوگا۔

شرح مشكل الآثار للطحاوي میں ہے:

"٢٨٢٣ - وكما حدثنا الربيع بن سليمان بن داود قال: حدثنا أصبغ بن الفرج قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا عبد الملك بن الحسن، عن عبد الرحمن بن أبي سعيد، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه " قال: قلت يا رسول الله , إن لقيت غنم ابن عمي آخذ منها شيئا؟ فقال: " إن لقيتها تحمل شفرة , وأزنادا بخبت الجميش فلا تهجها.

قال أبو جعفر: ففيما روينا إثبات تحريم مال المسلم على المسلم."

( باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك، ٧ / ٢٥٢، ط: مؤسسة الرسالة )

تبیین الحقائق میں ہے:

"وهي مشروعة مندوب إليها بالإجماع وشرطها أن يكون الواهب عاقلا بالغا حرا والموهوب له مميزا والموهوب مقبوضا وركنها الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له."

(كتاب الهبة، ٥ / ٩١، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، ٤ / ٦١، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100880

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں