بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

گاہک ڈھونڈنے کی اجرت لینے کا حکم


سوال

میں پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہوں، آج سے تین سال پہلے ایک شخص نےاپنی  زمین بیچنے کے لیے خریدار ڈھونڈنے کے لیےمجھے کہا تومیں نے اس کے لیے خریدار ڈھونڈا اور خریدار کوزمین کا وزٹ بھی کروایا ،اس  کے بعد خریدار اور زمین کے مالک نے براہِ راست سودا کیا ،اس دوران ان کے درمیان رقم کی ادائیگی کے حوالے سے تنازع بھی ہوا،بہر  حال دونوں نے زمین کا سودا کیا اور زمین فروخت ہوگئی ،اب میں بیچنے والے سے اپنی بروکری کا مطالبہ کرتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ  آپ  بروکری کاحقدار  نہیں ہے ، کیوں کہ آپ سودا اور رقم کے تنازع میں موجود نہیں تھے ،حالاں کہ میں نے اسے کہاتھا کہ میں آپ سے ایک فیصد لوں گا اور اس نے مجھے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں دو لاکھ روپے دوں گا ،تو میں  راضی ہوا،کہ چلودو لاکھ روپے دے دو ،اس کے بعد بائع (بیچنےوالے)اور مشتری (خریدنے والے )نے سودا آپس میں کیا،اور بروکری سے بچنےکےلیے مجھے درمیان سے نکال دیا۔

نوٹ: میں نے صرف زمین  کا خریدار  زمین بیچنے والے کے لیے ڈھونڈا اور اس کو  زمین کا وزٹ کروایا ، باقی معاملات انہوں نے خود طے کیے اور مجھے لاتعلق رکھا۔

اب پوچھنا یہ ہے  کہ کیامذکورہ صورتِ حال میں میں  بروکری (کمیشن)حق  دارہوں یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جب اپنی زمین فروخت کرنے کےلیے سائل کو بروکر مقرر کرکے خریدار تلاش کرکے سودا کروانے کی ذمہ داری دی تھی ، اور پھر سائل نے خریدار ڈھونڈ کر لایا تو اب مذکورہ شخص کےلیے ضروری تھا کہ سائل کےذریعہ خرید و فروخت کے جملہ امور انجام دیتے ،سائل کو نظر انداز کرکے اس شخص کا براہ راست خریداری کا معاملہ کرنا اور بغیر معقول وجہ کے سائل کو ایک طرف کرنا شرعاً واخلاقاً درست طریقہ نہ تھا،البتہ چوں کہ پوری بروکری کام مکمل کرنے کی صورت میں ہی ملتی ہے اور عملاً سائل سے سودا کا معاملہ مکمل نہیں ہوسکا،اس لئے سائل پوری بروکری کا حق دار تو نہیں ، تاہم جس قدر کام سائل نےکیا،اس کی اجرت مثل یعنی اس جیسے کام کی جتنی اجرت بنتی ہو وہ کسی غیر جانب دار  ثالث سے طے کرواکر وہ وصول کرنے کا حق دار ہوگا،مذکورہ شخص کو چاہیئےکہ اجرت مثل سائل کو ادا کرے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"‌‌باب أجر السمسرة ولم ير ابن سيرين وعطاء وإبراهيم والحسن بأجر السمسار بأسا وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك.

وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به وقال النبي صلى الله عليه وسلم المسلمون عند شروطهم."

(باب في الإجارة،‌‌ باب أجر السمسرة، ج:3، ص:92، ط:السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

مسندامام  احمد میں ہے:

"حدثنا وكيع، قال: سمعت الأعمش، قال: حدثت عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

(‌‌حديث أبي أمامة الباهلي الصدي، ج:36، ص:504، الرقم:22170، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمه:’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”مؤمن میں خیانت اور جھوٹ کی عادت نہیں ہو سکتی البتہ ان کے علاوہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ج:6، ص:63، ط:دارالفكر)

وفیہ ایضاً:

"وأما ‌الدلال ‌فإن ‌باع ‌العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف

(قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(كتاب البيوع، مطلب في بيع الثمر والزرع...، ج:4، ص:560، ط:دارالفکر)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"وليس للدلال ‌سوى ‌أجرة ‌الدلالة (علي أفندي بزيادة) وإذا لم تسلم له أجرة فله أجر المثل بالغا ما بلغ."

(الكتاب الثاني الإجارة، الباب السادس، الفصل الرابع، المادۃ:579، ج:1، ص:662، ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606102054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں