بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گائے کے گوشت کا حکم


سوال

کیا گاۓ کا گوشت کھانے سے کوئی  بیماری لگنے کا احتمال ہے؟

جواب

شرعی اعتبار سے کوئی  مستند روایت  یا  ایسا حکم  نہیں ملتا جس سے گائے کے گوشت کھانے کی ممانعت معلوم ہوتی ہو یا گائے کے گوشت کھانے کی وجہ سے کسی بیماری کے لگنے کا احتمال ہو۔

اس بارے میں لوگوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ "گائے کے گوشت میں وبا  اور دودھ میں شفا  ہے"، اس کے مفہوم  کی کوئی حدیث صحیح سند و متن کے ساتھ  ثابت نہیں، البتہ گائے کے دودھ سے متعلق جو حدیث صحیح سند و متن سے ثابت ہے اس میں  گائے کا دودھ پینے کا حکم ملتا ہے۔

 جیساکہ "السنن الكبری" میں ہے:

" أخبرنا عبد الله بن فضالة نا محمد بن يوسف عن سفيان يعني الثوري عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: ما أنزل الله داءً إلا أنزل له دواء، فعليكم بألبان البقر، فإنها ترم من الشجر كله". (٤/ ١٩٣، رقم الحديث: ٦٨٦٣)

نیز بعض احادیث میں خود رسول اللہ ﷺسے گائے کا ذبح اور آپ کے دسترخوان پر اس کے گوشت کا آناثابت ہے ، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر گائے کے گوشت کے کھانے کی ممانعت یا اس سے بیماری کا اندیشہ ہوتا تو آپ صراحتًا ارشاد فرمادیتے،  لیکن ان روایات میں ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ۔

امدادالفتاوی میں ہے:

"رسول  اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم کے گائے کا گوشت تناول فرمانے کا ثبوت :

سوال(۳۴۸۱) : قدیم ۶/۱۹۷-  رسول اللہ ﷺکبھی گائے کا گوشت کھائے یا نہیں ؟ اگرکھائے تو کون کتاب میں آگاہ فرماکر سرفراز فرماویں ؟

الجواب: "عن أبي الزبیر عن جابر قال: ذبح رسول اللّٰہ ﷺ عن عائشة بقرۃً یوم النحر." (صحیح مسلم کتاب الحج ج ۱ ص ۴۲۴)  (۱) وعن الأسود عن عائشة و أتي النبي ﷺ بلحم بقرۃ، فقیل: هذا ما تصدق به علی بریرۃ، فقیل: هو لھا صدقة، و لنا هدیة." (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ ج۱ ص ۳۴۵) (۲) حدیث اول میں ذبح بقرہ اور حدیث ثانی سے دستر خوان پر لحم بقرہ کا حاضر ہونا اور مانع عن الاکل کا جواب دینا جس کا لازم عادی ہے نوش فرمانا یہ سب تصریحاً حضور اقدس ﷺسے ثابت ہے۔                     (۱۷ ذِی الحجہ ۱۳۴۵؁ھ(تتمہ ص ۵۵۱ ج ۵) ۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں