بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو جس ہوٹل میں گائے کا پیشاب استعمال کرے، وہاں کا کھانا کھانے کا حکم/ حلال جانور کے پیشاب کا حکم


سوال

جن  ہندؤوں کے  ہوٹل میں گائے کا پیشاب ڈالا جاتا ہے، کیا وہاں کا کھانا جائز ہے؟ اور  جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہے تو کیا ان جانوروں کا پیشاب بھی پاک  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  گائے سمیت  ہر قسم کے حلال اور   حرام جانور  کا پیشاب ناپاک اور حرام ہے، لہٰذا  جس ہوٹل کے کھانوں میں گائے کا  پیشاب ڈالا جاتا ہو ، اس ہوٹل کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے،  بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے ایک خاص قوم کو ایک خاص بیماری کی وجہ سے اونٹ کے پیشاب کے ذریعے  علاج کا حکم فرمایا تھا،  جس کی وجہ سے بعض ائمہ نے اونٹ کے پیشاب کو پاک اور اس کے استعمال کو جائز بتایا ہے، لیکن حنفیہ نے  دیگر عمومی احادیث کی بنا پر اونٹ کے پیشاب کو بھی مطلقًا ناپاک قرار دیا ہے، اور ان روایات کی درج ذیل توجیہات کی ہیں:

1:  یہ حکم عمومی نہیں تھا، بل کہ خاص اس قوم کے ساتھ مخصوص تھا۔

2:  آپ  ﷺ  کو وحی کے  ذریعے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان لوگوں کی شفا اونٹی کے پیشاب میں منحصر ہے، اس کے علاوہ ان کی شفا  ممکن نہیں ہے تو یہ لوگ مضطر کے حکم میں ہوگئے تھے،  اور حالتِ اضطرار میں نجس استعمال کی گنجائش ہوجاتی ہے۔

3:  آپ  ﷺ  نے  ان کو پیشاب پینے کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ اس کے خارجی استعمال کا حکم دیا تھا، اور اس جملہ میں تضمین تھی، اصل جملہ یوں تھا ”اشربوا من ألبانها واستنشقوا أو واضمدوا من أبوالها“  یعنی اونٹنیوں کے  دودھ  سے  پیئو اور ان کے  پیشاب سے  چھڑکاؤ کرو یا لیپ کرلو۔

4:  بعض شراحِ  حدیث  فرماتے  ہیں،  یہ  حدیث  دیگر  عمومات سے منسوخ ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3 / 154):

"وَقَالَ أَبُو حنيفَة وَالشَّافِعِيّ وَأَبُو يُوسُف وَأَبُو ثَوْر وَآخَرُونَ كَثِيرُونَ: الأبوال كلهَا نَجِسَة إلاَّ مَا عُفيَ عَنهُ، وَأَجَابُوا عَنهُ بِأَن مَا فِي حَدِيث العرنيين قدكَانَ للضَّرُورَة، فَلَيْسَ فِيهِ دَلِيل على أَنه يُبَاح فِي غير حَال الضَّرُورَة؛ لِأَن ثمَّة أَشْيَاء أبيحت فِي الضرورات وَلم تبح فِي غَيرهَا، كَمَا فِي لبس الْحَرِير، فَإِنَّهُ حرَام على الرِّجَال وَقد أبيح لبسه فِي الْحَرْب أَو للحكة أَو لشدَّة الْبرد إِذا لم يجد غَيره، وَله أَمْثَال كَثِيرَة فِي الشَّرْع، وَالْجَوَاب الْمقنع فِي ذَلِك أَنه عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، عرف بطرِيق الْوَحْي شفاهم، والاستشفاء بالحرام جَائِز عِنْد التيقن بِحُصُول الشِّفَاء، كتناول الْميتَة فِي المخصمة، وَالْخمر عِنْد الْعَطش، وإساغة اللُّقْمَة، وَإِنَّمَا لَايُبَاح مَا لَايستيقن حُصُول الشِّفَاء بِهِ.

وَقَالَ ابْن حزم: صَحَّ يَقِيناً أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِنَّمَا أَمرهم بذلك على سَبِيل التَّدَاوِي من السقم الَّذِي كَانَ أَصَابَهُ، وَأَنَّهُمْ صحت أجسامهم بذلك، والتداوي منزلَة ضَرُورَة. وَقد قَالَ عز وَجل: {إلاَّ مَا اضطررتم إِلَيْهِ} [الْأَنْعَام: 119] فَمَا اضْطر الْمَرْء إِلَيْهِ فَهُوَ غير محرم عَلَيْهِ من المآكل والمشارب.

وَقَالَ شمس الأئمة: حَدِيث أنس رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ قد رَوَاهُ قَتَادَة عَنهُ أَنه رخص لَهُم فِي شرب ألبان الْإِبِل، وَلم يذكر الأبوال، وَإِنَّمَا ذكره فِي رِوَايَة حميد الطَّوِيل عَنهُ، والْحَدِيث حِكَايَة حَال، فَإِذا دَار بَين أَن يكون حجَّة أَو لَايكون حجَّة سقط الِاحْتِجَاج بِهِ، ثمَّ نقُول: خصهم رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بذلك؛ لِأَنَّهُ عرف من طَرِيق الْوَحْي أَن شفاءهم فِيهِ وَلَايُوجد مثله فِي زَمَاننَا، وَهُوَ كَمَا خص الزبير رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ بِلبْس الْحَرِير لحكة كَانَت بِهِ، أَو للقمل، فَإِنَّهُ كَانَ كثير الْقمل، أَو لأَنهم كَانُوا كفَّارًا فِي علم الله تَعَالَى وَرَسُوله  عَلَيْهِ السَّلَام علم من طَرِيق الْوَحْي أَنهم يموتون على الرِّدَّة، ولايبعد أَن يكون شِفَاء الْكَافِر بِالنَّجسِ. انْتهى.

فَإِن قلت: هَل لأبوال الْإِبِل تَأْثِير فِي الِاسْتِشْفَاء حَتَّى أَمرهم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بذلك؟ قلت: قد كَانَت إبله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ترعى الشيح والقيصوم، وأبوال الْإِبِل الَّتِي ترعى ذَلِك وَأَلْبَانهَا تدخل فِي علاج نوع من أَنْوَاع الِاسْتِشْفَاء، فَإِذا كَانَ كَذَلِك كَانَ الْأَمر فِي هَذَا أَنه عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام عرف من طَرِيق الْوَحْي كَون هَذِه للشفاء، وَعرف أَيْضاً مرضهم الَّذِي تزيله هَذِه الأبوال، فَأَمرهمْ لذَلِك، وَلَايُوجد هَذَا فِي زَمَاننَا، حَتَّى إِذا فَرضنَا أَن أحداً عرف مرض شخص بِقُوَّة الْعلم، وَعرف أَنه لَايُزِيلهُ إلاَّ بتناول الْمحرم، يُبَاح لَهُ حِينَئِذٍ أَن يتَنَاوَلهُ، كَمَا يُبَاح شرب الْخمر عِنْد الْعَطش الشَّديد، وَتَنَاول الْميتَة عِنْد المخمصة، وَأَيْضًا التَّمَسُّك بِعُمُوم قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (استنزهوا من الْبَوْل فَإِن عَامَّة عَذَاب الْقَبْر مِنْهُ) أولى؛ لِأَنَّهُ ظَاهر فِي تنَاول جَمِيع الأبوال، فَيجب اجتنابها لهَذَا الْوَعيد، والْحَدِيث رَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَة، وَصَححهُ ابْن خُزَيْمَة وَغَيره مَرْفُوعاً". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں