بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گندم کٹائی کی اجرت اسی گندم سے دینا / جانوروں کو پالنے کی اجرت کی ایک صورت اور اس کا حکم


سوال

1.ہمارے ہاں لوگوں کی  یہ عادت ہے کہ جب گندم پک جاتی ہے  تو گندم کا مالک کسی دوسرے آدمی سے کہتا ہے کہ آپ اس فصل کو کاٹ لو، اور اسی گندم میں سے مثلاً چھٹا یا ساتواں حصہ آپ کو بطور ِاجرت ملے گا، اور کبھی مقدار کی تعیین بھی کرتا ہے کہ مثلاً سات4 یا آٹھ من بطور اجرت آپ کو ملے گا اسی گندم  میں سے ۔

کیا ایسا عقد کرنا جائز ہے یا نہیں ؟اگر جائز ہے تو اس چھٹے حصے کی زکوۃ ،یا اس سات یا آٹھ من گندم کی زکوۃ کس کے ذمہ ہوگی ؟

2.دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اس طرح شرکت کرتے ہیں کہ ایک آدمی دوسرے کو کچھ جانور متعین مدت تک دیتے ہیں، اور جانوروں کی کل قیمت بھی معلوم کی جاتی ہے ، اور وہ دوسرا آدمی ان جانوروں کو چرانے اور چارہ کھلانے کا انتظام کرتا ہے ، مدت پوری ہونے پرسب سے پہلے راس المال کو پورا کیا جاتاہے، اس کے بعد جو نفع بچتا ہے وہ آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرتے ہیں۔کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب

1. صورتِ مسئولہ میں  گندم کے مالک کا گندم کاٹنے والے کو گندم کی فصل کی کٹائی کی اجرت اسی گندم میں سے  حصے یا من کے طور پر طے کرکے دینا  جائز نہیں ہے۔

جواز کی صورت یہ ہے کہ کھیت کاٹنے والے مزدور سے یہ نہ کہاجائے کہ تمہارے کاٹی ہوئی گندم میں سے تمہیں  اتنی اجرت دی جائے گی، بلکہ یوں کہاجائے کہ اس فصل کے کاٹنے کی اجرت اتنی رقم ہے، یا اتنے من ہے، پھرجب وہ فصل کاٹ لے تو اسی کے کاٹے ہوئے میں سے بھی رقم کے بدلے گندم دے سکتا ہے، اسی طرح من کے اعتبار سے بھی   مالک اسے دے سکتا ہے، اور دوسری کسی جگہ سے حاصل کرکے بھی دے سکتا ہے۔

نیز جواز کی صورت میں مزدوروں کو کٹائی پر  اجرت میں جو گندم دی جاتی ہے، اس کا عشر  ادا کرنا   اصل مالک یعنی  اگانے والے کے ذمہ ہے، مزدور پر اس کے عشر کی ذمہ داری نہیں ہے، اس لیے کہ اسے گندم یہ کام کی اجرت کی وجہ سے ملی ہے۔

2. مذکورہ عقد شرکت کا نہیں بلکہ اجارہ کا ہے ، اجارہ کے معاملے میں شرعاً یہ لازم ہے کہ اجرت متعین ہو، اگر کسی معاملہ میں اجرت متعین نہ ہو تو ایسا معاملہ فاسد ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں جانورکے پالنے کی اجرت کتنی ملے گی؟ یہ معلوم نہیں، بلکہ  ہو سکتا ہے کہ  جانوروں کو فروخت کرنے کی صورت میں وہ قیمتِ خرید کے برابر ہی قیمتِ فروخت ہو تو اس صورت میں پالنے والے  کی  اجرت ہی نہیں ہوگی، لہذا ایسا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں۔لہذا جس شخص کو جانور پالنے ، چرانے کے لیے دیئے جائیں اس کے لیے ایک متعینہ اجرت ابتدا سے ہی مقرر کرلی جائے ، اگرچہ مالک جانوروں کے فروخت ہونے کے بعد وہ اجرت ادا کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفيزاً منه فيجوز.

(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي.‘‘

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:6ص:56-58 ، ط:سعید)

خلاصۃ الفتاوی ہے :

’’رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً، وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة‘‘.

(خلاصة الفتاوی،کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب ... ومایتصل بها،ج:3،ص؛114، ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں