بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں کے مضافات میں واقع بستیوں میں نماز جمعہ کا حکم، اگر فساد کا خوف نہ ہو تو چھوٹے گاؤں میں جمعہ سے روکا جائے،فساد کا خوف ہو تو شوافع کے مذہب پرعمل کرنے کی اجازت


سوال

1)ایک بڑا گاؤں ہے جس کی آبادی تقریبا ڈھائی تین ہزار افراد پر مشتمل ہے اس میں اشیائے خوردونوش کے پندرہ اٹھارہ  دکانیں دو کلینک اور ساتھ گاؤں کے ایک طرف متصل پرائمری اسکول جب کہ مڈل اور ہائی سکول گاؤں سے باہر ہے ایک عرصے سے اس میں جمعہ کی نماز پڑھی جارہی ہے لیکن اس گاؤں کے مضافات (باد یہ یعنی بانڈے)میں چاروں اطراف تقریباً میل دو  میل کے فاصلے پر بھی کچھ لوگ رہائش پذیر ہیں ان میں سے دو بادیوں( بانڈوں) میں نماز جمعہ ابھی ابھی شروع ہوا ہے اور باقی اطراف والے لوگ بھی جمع شروع کرنے کے خواہشمند ہیں پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ گاؤں کے اطراف و اکناف میں رہنے والے لوگوں پر نماز جمعہ فرض ہے یا نہیں؟

2) اگر یہی لوگ وہاں باد یہ میں نماز جمعہ شروع کریں تو جائز ہوگا یا نہیں بعض حضرات کی رائے ہے جس طرح کے شہر کے ہر محلے کی مسجد میں نماز جمعہ جائز ہوتا ہے اسی طرح قریہ کبیرہ کے تمام اطراف والی مسجد میں بھی جمعہ جائز ہوتا ہے اگرچہ وہ مضافات پر یا کبیر کے ساتھ متصل نہ ہو بلکہ دونوں کے بیچ میں کافی حد تک زرعی زمین کھیت واقع ہو تب بھی نماز جمعہ وہاں پر صحیح ہو جارتی ہے، تو کیا درمیان میں  ان میں کھیتوں اور خالی زمین کا واقع ہونا مضافات (اطراف) میں صحت جمعہ کے لئے مانع ہے یا نہیں؟

اب زمانے کے قریب میں ہمارے ہاں  جگہ بہ جگہ نماز جمعہ شروع ہو رہی ہے جس سے کافی تشویش اور خلجان پیدا ہوا ہے برائے کرم تفصیلی جواب تحریر فرما کر اجر دارین حاصل کریں۔

3)جہاں نماز جمعہ درست نہیں اگر وہاں پر کوئی پڑھ لے تو اس پر شرعاً ظہر کی نماز باقی اور لازم ہے کہ نہیں؟

4)نیز یہ بھی پوچھنا ہے کہ جن علاقوں میں زمانہ قریب کچھ عرصے پہلے سے جمعے کی نماز شروع ہوچکی ہے جب ان کی بابت پوچھا  جائے تو کہتے ہیں کہ منع کرنے میں فتنہ و فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جب کہ بندے کا غالب گمان یہی ہے کہ ابھی تک کسی امام یا عالم دین نے اپنی قوم کو یہ مسئلہ سمجھایا نہیں قوی امید ہے کہ اگر ائمہ حضرات اپنی قوم کو مسئلہ سمجھائیں کہ ہمارے علاقے میں شرائط مفقود ہیں ، یہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں بلکہ ازروئے شرع یہاں پر ظہر کی نماز  پڑھنی ہوگی تو ممکن ہے کہ قوم مان لے یا کم ازکم آئندہ جمعے کے انعقاد میں لوگ محتاط ہوں گے ورنہ بصورت دیگر اگر اس مسئلہ میں سستی اختیار کی گئی جس طرح ہو رہا ہے تو ممکن ہے کہ اس میں حنفی مسلک پر عمل کرنے والا کوئی نہ رہے گا اس مسئلے پر بغور و خوض نظر فرما کر اس کے تمام زاویوں پر روشنی ڈالیں یہاں تک کہ اس مسئلہ کا کوئی ایک پہلو بھی بغیر تفصیلی جواب کے نہ رہ جائے اور ساتھ اگر یہ وضاحت بھی ہو کہ جہاں جہاں شرائط کے فوت ہونے کے باوجود نماز جمعہ شروع ہو چکا ہے  اس کے ختم کرنے یا باقی رکھنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے تو بڑی مہربانی ہوگی؟

5) وایضاً  بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک پر عمل کرتے ہیں  تو کیا ایسے مسئلے میں خروج عن المذہب الحنفی یا جائز ہے ؟ بینوا توجروا

جواب

1)واضح  رہے کہ جمعہ کی نماز صحیح ہونے  کے لیے مصر ، فناء مصر یا ایسا قریہ کبیرہ ہونا شرط ہے  جس کی آبادی تقریباً ڈھائی سے تین ہزار تک ہو اور اس میں روزمرہ ضروریات کی اشیاء کے لیے  بازار یا دکانیں  موجود ہوں اس کے برعکس قریہ صغیرہ(چھوٹا گاؤں ، چھوٹی بستی) میں ،جہاں مذکورہ بالا شرائط نہ ہوں جمعہ کی نماز   پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسے گاؤں کے لوگوں پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ گاؤں کے مضافات میں واقع چھوٹی آبادیوں میں جمعہ کی شرائط مفقود ہیں کیوں کہ نہ وہ مصر یا فناء مصر ہیں اور نہ ہی ایسی بڑی بستیاں ہیں جہاں بازار اور دکانیں ہوں لہذا ان مضافات میں رہنے والوں پر  جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے بلکہ ان پر جمعہ کے دن اپنے گاوں میں ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہےاور اگر ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں جمعہ کی نماز ہوری ہے تو وہاں جمعہ کی نماز پڑھیں۔

 فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

اگر قصبہ کے حدود میں جمعہ پڑھیں تو صحیح ہے اور جو دیہات متصل قصبہ کے ہیں ان میں جائز نہیں ہے اور مراد حدود قصبہ سے فناء شہر ہے جس میں قصبہ کے کاروبار ہوتے ہیں جیسے رکضِ خیل وغیرہ

(کتاب الصلوٰۃ،الباب الخامس عشر فی صلوٰۃ الجمعہ ج:5،ص:41،ط:دار الاشاعت)

2) مذکورہ گاؤں کے مضافات میں واقع بستیوں میں جمعہ شروع کرناجائز نہیں،شہر کے ہر محلے میں نماز جمعہ کے صحیح ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قریہ کبیرہ کے اطراف میں واقع بستیوں کے اندر بھی جمعہ کی نماز جائز ہو،  ایک شہر  کے مختلف علاقے اس شہر کی حدود کے اندر ہوتے ہیں جبکہ مذکورہ گاؤں کے مضافات کی بستیاں گاؤں کی حدود سے خارج ہیں بالخصوص جب کہ گاؤں اور مضافات کی بستیوں کے درمیان زرعی زمینیں بھی  واقع ہیں۔

3)چھوٹا گاؤں  جہاں  جمعہ کی شرائط مفقود ہوں وہاں جمعہ کی نماز پڑھنے سے ظہر کی نماز ساقط نہیں ہوتی، بلکہ ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہے۔

4،5)جن علاقوں جمعہ کی شرائط مفقود ہونے کے باوجود قدیم ایام سے جمعہ ہو رہا ہو  ایسے علاقوں  کے بارے میں اکابر رحمہم اللہ نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ فتنہ و فساد سے بچنے کی خاطر وہاں جمعہ کے قیام سے منع نہ کیا جائے ، لیکن اگر چھوٹے گاؤں میں قریب زمانے میں جمعہ شروع کیا گیا ہے اور وہاں کے علماء کو یہ ظن غالب ہے کہ اگر عوام کو یہ بات سمجھائی جائے کہ اس علاقے میں از روئے شرع جمعہ کی نماز درست نہیں بلکہ ظہر پڑھنا ضروری ہے  تو لوگ اس بات کو قبول کریں گے اور جمعہ کو روکنے میں جن مفاسد کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے وہ پیدا نہیں ہوں گے تو ایسے علماء ضرور اپنے علاقہ کے لوگوں کو یہ مسئلہ بتائیں اور انہیں جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز پڑھنے پر آمادہ کریں، لیکن اس کے باوجود اگر لوگ اس بات کو تسلیم نہ کریں اور  گاؤں میں اختلاف و انتشار کی فضاء پیدا ہونے لگے تو ایسی صورت میں حنفیہ کے لیے شوافع کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت  ہے  لہذا  مذکورہ علماء حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی بات پر اصرار نہ کریں اور خود نماز جمعہ میں شریک بھی  نہ ہوں بلکہ جمعہ کے دن ظہر کی نماز ادا کریں۔

مفتی ہند حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہی:

"حنفی مذہب کے موافق قریٰ یعنی دیہات میں جمعہ صحیح نہیں ہوتا اس لیے اگر کسی گاؤں میں پہلے جمعہ قائم نہیں ہے تو وہاں جمعہ قائم نہ کرنا چاہیے کیوں کہ حنفی مذہب کے موافق اس میں جمعہ صحیح نہ ہو گا اور فرضِ ظہر جمعہ پڑھنے سے ساقط نہ ہوگا لیکن اگر وہاں قدیم الایام سے جمعہ قائم ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں یا یہ کہ اسلامی حکومت میں بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہوا تھا تو حنفی مذہب کی رو سے وہاں جمعہ صحیح ہوتا ہے اس لیے بند کرنا درست نہیں یا یہ کہ بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہونا ثابت نہیں یا یہ معلوم ہے کہ مسلمانوں نے خود قائم کیا تھا مگر ایک زمانہ دراز سے پڑھا جاتا  ہے اس صورت میں حنفی مذہب کے اصول کے موافق تو اسے بند  کرنا چاہیے یعنی بند کرنا ضروری ہے لیکن چوں کہ عرصہ دراز کے قائم شدہ جمعہ کو بند کر دینے میں جو فتنے اور مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے اس مسئلہ میں حنفیہ کو شوافع کے مذہب پر عمل کر لینا جائز ہے اور جب کہ وہ شوافع کے مذہب پر عمل کر کے جمعہ پڑھیں تو ظہر ساقط نہ ہونے کے کوئی معنی نہیں مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور مفاسد لازمہ عمل بمذہب الغیر کے لیے وجہ جواز ہیں۔"

(کفایت المفتی ،کتاب الصلوٰۃ، پانچوں باب: نماز جمعہ، فصل دوم شرائط جمعہ،ج:3،ص:239،ط:دار الاشاعت)

ایک اور جگہ  فرماتے ہیں:

"جو لوگ کہ ایسے گاؤں میں جمعہ پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے وہ نہ پڑھیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے،پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں ہیں اور نہ پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں آپس میں اختلاف اور فتنہ و فساد پیدا جرنا حرام ہے۔"

(ایضا:ص:235)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر

(باب الجمعة2/ 138،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة

(قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة ح (قوله بما لا يصح) أي على أنه عيد، وإلا فهو نفل مكروه لأدائه بالجماعة ح

 

(‌‌باب العيدين،2/ 167،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

«وأن ‌الحكم ‌والفتيا بالقول المرجوح جهل وخرق للإجماع،»

هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه، نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عاميا فلم أره، لكن مقتضى تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك. قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنى النصوص والأخبار وهو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها وإن كان مخالفا لمذهبه اهـ.

قلت: لكن هذا في غير موضع الضرورة، فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعيفة، ثم قال: وفي المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلبا للتيسير كان حسنا. اهـ. وكذا قول أبي يوسف في المني إذا خرج بعد فتور الشهوة لا يجب به الغسل ضعيف، وأجازوا العمل به للمسافر أو الضيف الذي خاف الريبة كما سيأتي في محله وذلك من مواضع الضرورة

(مقدمة1/ 74،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

(ولم تحض) الشابة الممتدة بالطهر بأن حاضت ثم امتد طهرها، فتعتد بالحيض إلى أن تبلغ سن الإياس جوهرة وغيرها... وقد نظمه شيخنا الخير الرملي سالما من النقد فقال:

لممتدة طهرا بتسعة أشهر ... وفا عدة إن مالكي يقدر

ومن بعده لا وجه للنقض هكذا ... يقال بلا نقد عليه ينظر

(قوله: هكذا يقال) يعني ينبغي أن يقال مثل هذا القول الخالي من نقد واعتراض ينظر به عليه لا كما قال بعضهم من أنه يفتى به للضرورة. اهـ. ح...ولهذا قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون بقول مالك في هذه المسألة للضرورة. اهـ.

ثم رأيت ما بحثته بعينه ذكره محشي مسكين عن السيد الحموي وسيأتي نظير هذه المسألة في زوجة المفقود حيث قيل إنه يفتى بقول مالك إنها تعتد عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين»

(‌‌كتاب الطلاق،‌‌باب العدة،مطلب في الإفتاء بالضعيف 3/ 508،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں