بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں


سوال

صورتِ مسئلہ: ہم نے 1 گاڑی جس کی کل قیمت 24 لاکھ سے زائد تھی، اُس کی ڈاون پیٹنٹ چند ماہ قبل ادا کر کے پشاور میں بک کروائی۔ کمپنی نے ہم سے بقیہ تمام رقم 1 ماہ قبل لی اور اب وہ گاڑی کراچی میں تیار ہو گئی ہے۔ کمپنی نے اسکا engine نمبر اور چیسس نمبر (جو ہر ایک گاڑی کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے) ہمیں allott کر دیا ہے۔ اور کمپنی نے بتایا ہے کہ آپ کی گاڑی کراچی سے روانہ کر دی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ: کیا engine نمبر اور چسیس نمبر کی تعیین مبیع کے لیے افراز متصور کرتے ہوئے قبضہ شرعی کے حکم میں ہوگی؟ کیا اب ہم گاڑی کے اپنے پاس پہنچنے سے پہلے فروخت کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا خریدار سے وعدہ بیع کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب تک سائل کی خریدی ہوئی گاڑی سائل یا اس کے کسی وکیل کے قبضے میں نہ آجائے، اس وقت تک سائل کے لیے اس گاڑی کو آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں ہے، قبضے سے پہلے سائل اپنے خرید ار سے وعدہ بیع کرسکتا ہے، پھر جب گاڑی پر قبضہ ہوجائے تو اس کے بعد گاڑی فروخت کی جائے۔

باقی  گاڑی کا صرف انجن نمبر اور چیسس نمبر الاٹ ہونے سے شرعاً گاڑی پر قبضہ شمار نہیں ہوتا۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض۔۔۔أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(فتح القدیر، کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیہ، ج: 6، ص: 511، ط: دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں