نعمان نے عابد کو گاڑی فروخت کی تقریبا دس لاکھ کی اور عابد نے دو لاکھ روپے ادا کرکے بقایا کا دو ماہ کا وقت رکھا، اب عابد ان دو ماہ میں وہ بقایا رقم ادا نہ کر سکا اور اس نے کسی اور سے بقایا رقم یا کوئی عین چیز اس شرط پر لی کہ وہ اس چیز کا آدھا نفع دے گا اب نعمان کو اس بات کا پتا چلا تو اس نے عابد سے کہا کہ میں آپ کو پیسے دے دیتا ہوں ایک وقت مقرر کے لئے اور اس شخص کو جتنا نفع دے رہے تھے اس سے انتہائی کم نفع مجھے دو اور وہ پیسے لو تو ازروئے شریعت یہ معاملہ کیسا ہے؟حالانکہ عابد پہلے سے ہی نعمان کا قرض دار ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر عابد نے گاڑی کی بقایا رقم ادا کرنےکے لیے کسی تیسرے شخص سے یا خود نعمان سے رقم لی اور اس رقم پر اس نے منافع دینے کا وعدہ کیا تو یہ سود ہے، اس لیے عابد کی لی ہوئی رقم کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض پر مشروط نفع لینا یا دینا سود ہے اور سود لینا دینا ناجائز، حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.
(5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط؛ سعید)
باقی عابد کے تیسرے شخص سے عین چیز لینے اور اس کے بدلے نفع دینے کی کیا تفصیل ہے؟ اور اگر عابد رقم لے کر اس کو کاروبار میں لگائے گا اور اس کے منافع کو تقسیم کرے گا تو اس کی تفصیلات کیا ہیں، یہ معلوم ہونے کے بعد ان صورتوں کا جواب دیا جائے گا۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200022
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن