بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں والوں کو گاؤں کے افراد کے زنا کرنے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ لگانے کا فیصلہ کرنا


سوال

کیا گاؤں والوں کا ایسا قانون بنانا کہ اگر کوئی گاؤں کا لڑکا یا لڑکی زنا کرے، یا دوسری مقام پر چھپ کر زنا کرے اور پکڑے جانے پر خود گناہ کا اعتراف کرےتو اس کے گھر والوں  کو مثلاً ایک لاکھ روپیہ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا، اور اس روپیہ کو غریبوں پر صدقہ کیا جاۓگا، تو کیا ایسا قانون بنانا درست ہوگا؟  نیز روپیہ غریبوں کو صدقہ کرنا درست ہوگا، یا وقتی طور پر روپیہ  لے کر بعد میں اصل مالک کو لوٹا دیا جائے گا؟

جواب

’’زنا‘‘ کبیرہ گناہوں میں سے سخت ترین گناہ ہے،   ’’زنا‘‘ کی شرعی سزا (حد) مقرر ہے،  اگر کوئی شخص اس فعلِ شنیع کا ارتکاب کرے اور  شرائط کے مطابق چار گواہوں کے ذریعہ، یا چار مرتبہ قاضی کی مجلس میں اقرار کے ذریعہ (جس کی تفصیل کتبِ فقہ میں موجود ہے) اس کاثبوت ہوجائے تو شریعتِ محمدیہ میں ایسے فرد پر ’’حدِّ زنا‘‘ کانافذکرنا لازم ہے۔

زناکی شرعی سزایہ ہے کہ اگر بالغ شادی شدہ مردیا عورت زنا کرے تو  اس کو سنگ سار  کیا جائے  اوراگرغیرشادی شدہ اس حرکت کا مرتکب ہو تواس کو سوکوڑے مارے جائیں۔ ثبوت کے بعد سزا کو معاف کرنے کا اختیار قاضی کو نہیں ہے۔ البتہ حد جاری ہونے کے بعد بھی  زنا کرنے والے شخص پر توبہ کرنا ضروری ہے۔

لیکن ان   سزاؤں  (اور تعزیرات )کے نفاذ کا اختیار اسلامی حکومت اور عدلیہ کوہے، ہرفرد کوسزاؤں کے نفاذ کا اختیار شریعت نے نہیں دیاہے۔

لہذا اگر کسی شخص سے زنا جیسا کبیرہ گناہ سرزد ہوجائے  اور اس پر کسی وجہ سے حد ثابت نہ ہوئی ہو یا جاری نہ ہوئی ہو تو  لوگ از خود اس پر کوئی سزا جاری نہیں کرسکتے، ہاں  عام مسلمانوں   زجراً و توبیخاً ایسے بدکردارشخص سے تعلقات، سلام کلام،میل جول وغیرہ ترک کردیں اور جب تک وہ توبہ نہ کرے اور اس کی توبہ کا خلوص قرائن سے معلوم نہ ہوجائے ، اس وقت تک اس سے ترکِ تعلقات قائم رکھیں۔ 

اور ان کے  سرپرست  ان کو تنبیہ کی غرض سے مناسب سزا بھی دے  سکتے ہیں، لیکن ان پر  یا ان کے خاندان والوں پر مالی جرمانہ لگانا جائز  نہیں ہے،   لہذا  گاؤں میں زنا کرنے والے لوگوں پر سوال میں ذکر کردہ  ضابطہ بنانا جائز نہیں ہے، اگر ان سے رقم لے لی ہو تو  غریبوں میں صدقہ کرنے کے بجائے  ان کو واپس کردی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 7):

"و يثبت بشهادة أربعة) رجال (في مجلس واحد) فلو جاءوا متفرقين حدوا (ب) لفظ (الزنا لا) مجرد لفظ (الوطء والجماع) وظاهر الدرر أن ما يفيد معنى الزنا يقوم مقامه (ولو) كان (الزوج أحدهم إذا لم يكن) الزوج (قذفها) ... (ويثبت) أيضًا (بإقراره) صريحا صاحيا، ولم يكذبه الآخر، ولا ظهر كذبه بجبه أو رتقها، ولا أقر بزناه بخرساء أو هي بأخرس لجواز إبداء ما يسقط الحد؛ ولو أقر به أو بسرقة في حال سكره لا حد؛ ولو سرق أو زنى حد لأن الإنشاء لا يحتمل التكذيب والإقرار يحتمله نهر (أربعا في مجالسه) أي المقر (الأربعة كلما أقر رده) بحيث لا يراه (وسأله كما مر) حتى عن المزني بها لجواز بيانه بأمة ابنه نهر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں